پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودہ قیادت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں غیر سنجیدہ اور ناپختہ سوچ کے حامل افراد کا قبضہ ہے۔ جو لوگ طویل عرصے تک پارٹی کے ساتھ رہے اور ان میں کسی بھی مشکل وقت میں پارٹی کی قیادت کرنے کی صلاحیت موجود تھی وہ الگ ہو چکے ہیں۔ الگ ہونے والوں کی اکثریت نے اہم عہدوں پر ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ اس وقت ماسوائے چند ایک کے اکثریت جذباتی بیانات اور غیر سنجیدہ سوچ کے حامل افراد پاکستان تحریک انصاف کو چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف معاملات میں پی ٹی آئی کے فیصلے زمینی حقائق اور ضرورت کے برعکس ہوتے ہیان۔ پارٹی اندرونی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے، سنجیدہ قیادت یا تو الگ ہو چکی یا پھر خاموش ہے اور وہ اس تماشے کا حصہ نہیں بننا چاہتی جو ہیںوہ دوسرے منٹ بعد اپنا موقف بدل لیتے ہیں۔ نہ تو وہ سیاسی قیادت سے بات چیت کرتے ہوئے کسی حتمی نتیجے کی طرف جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ ہی ملک کے سیاسی منظر نامے اور حقائق کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کرنے کہ اہلیت رکھتے ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ملکی سیاست میں ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری، جس نے عوام کو تبدیلی کا نعرہ دیا اور پرانی سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک متبادل فراہم کیا۔ لیکن آج پی ٹی آئی کو نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے جو اس کی سیاسی ساکھ اور مستقبل کے لیے سنگین چیلنج بن چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لیے سب سے بڑا بیرونی چیلنج اس کی حکومت کا اختتام اور نئے سیاسی اتحادوں کا سامنے آنا ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران پی ٹی آئی نے عوام سے کیے گئے کئی وعدے پورے نہ کر سکے، جس کی وجہ سے اسے عوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور معیشت کی بدحالی نے عوام میں مایوسی پھیلائی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر جماعتوں نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ موجودہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان قانونی جنگ اور کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں پر لگائے گئے الزامات اور گرفتاریوں نے نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ اس کے حامیوں کو بھی مایوس کیا ہے۔پی ٹی آئی کو اندرونی طور پر بھی تقسیم کا سامنا ہے۔ پارٹی کے کچھ اہم رہنما اپنے خیالات اور حکمتِ عملیوں میں اختلاف رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر گروپ بندی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت پر کئی بار تنقید ہوئی ہے کہ وہ نیچے کی سطح پر پارٹی کو منظم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور پنجاب جیسے اہم صوبوں میں پارٹی کی اندرونی سیاست اور عہدوں کی تقسیم پر اختلافات سامنے آئے ہیں۔ عمران خان کی قیادت پر بھی پارٹی کے اندر سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جہاں عمران خان کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہے، وہیں پارٹی کے اندر کچھ افراد انہیں ہر معاملے پر سخت موقف اپنانے کے لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو مذاکرات اور سیاسی اتحاد بنانے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اندرونی صفوں کو درست کرے اور تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط بنائے۔ اگر پارٹی اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے اور ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے میں کامیاب ہو جائے، تو وہ بیرونی دبائو کا بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔
عوامی اعتماد کی بحالی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنی پالیسیوں میں شفافیت اور عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے۔ مزید برآں، عمران خان کو سیاسی حکمت عملی میں لچک دکھاتے ہوئے دیگر جماعتوں کے ساتھ تعاون اور مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے ہوں گے۔تحریکِ انصاف کی بقا اور مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ کیسے اپنے اندرونی مسائل کو حل کرتی ہے۔ ورنہ، موجودہ صورتحال پی ٹی آئی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی ) کی سیاست کا ایک اہم پہلو عمران خان کی شخصیت کے گرد گھومنا ہے۔ ان کے بغیر پارٹی کی سیاسی بقا کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی عمران خان کے بعد بھی اپنی جگہ برقرار رکھ سکے گی؟ اور اگر عمران خان کی جگہ کوئی دوسرا لے، تو وہ کون ہو سکتا ہے؟ فی الحال پی ٹی آئی کے اندر کوئی واضح متبادل سامنے نہیں آیا جو عمران خان کی طرح عوامی سطح پر مقبول ہو یا پارٹی کی مکمل قیادت سنبھال سکے۔ عمران خان کے گرد پارٹی کی سیاست اس قدر مرکوز ہے کہ ان کے بغیر پی ٹی آئی کی قیادت کا تصور مشکل لگتا ہے۔ شاہ محمود قریشی پارٹی کے سینئر رہنما اور تجربہ کار سیاستدان ہیں، لیکن انہیں عمران خان جیسی عوامی حمایت کا حامل قائد نہیں سمجھا جاتا۔
پی ٹی آئی کا ایک اہم مسئلہ یہی ہے کہ وہ ایک شخص کے گرد زیادہ مرکوز ہے، اور اس کے اندر قیادت کی تربیت اور متبادل لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ عمران خان کی قیادت پر مکمل انحصار پارٹی کے لیے مستقبل میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ کسی بھی پارٹی کو ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچے اور قیادت کے متبادل تیار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو دیرپا بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف ایک شخصیت پر انحصار نہ کریں بلکہ قیادت کی تربیت کا نظام بنائیں تاکہ وقت آنے پر متبادل لیڈرشپ اآانی سے سامنے آ سکے۔ پی ٹی آئی کو مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرے اور پارٹی کے اندرونی ڈائیلاگ اور تربیت کو فروغ دے۔ پارٹی کی کامیابی اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ مزید قابل اور عوامی مقبولیت کے حامل رہنما بھی سامنے آئیں۔اگر پارٹی نئے لیڈرز کو تیار کرنے پر توجہ دے تو ایک مضبوط قیادت سامنے آنے کے بعد ملکی سیاست میں اپنی جگہ برقرار رکھ سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، اگر پی ٹی آئی ایک شخص کے گرد گھومتی رہی، تو عمران خان کی غیر موجودگی میں اسے سیاسی طور پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کو عمران خان کا متبادل تلاش کرنے یا کم از کم قیادت میں تنوع لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایک مضبوط اور مستقل سیاسی جماعت وہی ہوتی ہے جس کے پاس قیادت کے متبادل موجود ہوں، تاکہ ایک شخصیت پر انحصار کم ہو اور جماعت کا مستقبل محفوظ ہو۔
آخر میں فرحت عباس شاہ کا کلام
آکسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں
جس طرح مرگ جواں پہ دیہاتوں میں
بوڑھیاں روتے ہوئے بین کیا کرتی ہیں
جس طرح سیاہ پوش پرندے کے کہیں گرنے پہ
ڈار کے ڈار زمینوں پہ اتر آتے ہیں
چیختے، شور مچاتے ہوئے، کرلاتے ہوئے
اپنے محروم رویوں کی المناکی پر
اپنی تنہائی کے ویرانوں میں چھپ کر رونا
اجنبیت کے گھٹا ٹوپ بیابانوں میں
شہر سے دور سیاہ غاروںمیں چھپ کر رونا
اک نئے دکھ کے اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں
اپنی ہی ذات کے گنجل میں الجھ کر تنہا
اپنے گمراہ مقاصد سے وفا ٹھیک نہیں
قافلہ چھوڑ کے صحرا میں صدا ٹھیک نہیں
ہم پرندے ہیں نہ مقتول ہوائیں پھر بھی!
آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں۔۔۔