رات بے خوابی میں کروٹیں لیتے گزری ہے۔ ممکن ہوتا تو کالم لکھنے سے گریز کرتا۔ یوں مگر کام چوری ہوجاتی۔ قلم اٹھاتے ہی لیکن منیر نیازی کا ایک شعر یاد آیا ہے۔ بے خوابی کی وجہ سے مائوف ہوئے ذہن سے اگر ایک آدھ لفظ مذکورہ شعر میں آگے پیچھے ہوجائے تو معاف کردیجئے گا۔ بہرحال جو شعر ذہن میں آیا ہے وہ ہر اس شخص کے مرجانے کا اعلان کرتا ہے ’’میں جس سے پیار کرتا ہوں۔‘‘ مجھے خبر نہیں کہ منیر نیازی صاحب جنہیں میں انتہائی احترام سے ’’خاں صاحب‘‘ پکارتے ہوئے اکثر طنز بھرے فقرے اچھالنے کو اُکساتا تھا مذکورہ شعر لکھ کر اس بارے میں فخر کا اظہار کرنا چاہتے تھے کہ وہ جس سے پیار کرتے ہیں وہ ان کی محبت کی تاب نہ لاکر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے یا اس شعر میں غم کا ذکر تھا کہ انہیں جس سے بھی محبت ہوئی وہ اتفاقاََ زندہ نہ رہ پایا۔
’’خان صاحب‘‘ زندہ ہوتے تو ان دنوں انہیں گھیر گھار کر مذکورہ شعر کی تفہیم کو مجبور کردیتا۔ میری بدقسمتی کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ زندہ ہوتے تو انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ ان کا لکھا یہ شعر درحقیقت تحریک انصاف کی قسمت کے بارے میں بھی ہے۔ کرکٹ کی وجہ سے کرشمہ ساز ہوئے عمران خان نیازی سیاست میں آئے تو منیر نیازی کی طرح جسے بھی چاہا وہ کامیاب نہ ہوا۔ یہ دعویٰ ثابت کرنے کو میرے پاس بہت کہانیاں ہیں۔ ان سب کو بیان کرنا شروع ہوگیا تو مزا نہیں آئے گا۔ اصل موضوع سے ہٹ جائوں گا۔
ریگولر اور سوشل میڈیا کے قاری بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے عاشقان عمران اصرار کئے چلے جارہے تھے کہ نام نہاد فارم 47کے بل پر قائم ہوئی حکومت کی ’’جان‘‘ طلسماتی کہانیوں میں بتائے ایک طوطے (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ )میں ہے۔ اسی باعث یہ حکومت اور اس کے غیر سیاسی سرپرست موجودہ چیف جسٹس کی معیادِ ملازمت میں توسیع دینا چاہ رہے ہیں۔ مطلوبہ توسیع کی طلب ہی میں آئین میں ترامیم کا طومار تیار ہورہا ہے۔ فائز عیسیٰ کو جائز وناجائز وجوہات کی بنیاد پر ’’دھاندلی زدہ انتخاب کی بنیاد پر قائم ہوئی حکومت‘‘ کا واحد سہارا ثابت کرنے کی کوشش شروع ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر اس سوچ کے فروغ نے بالآخر جسٹس صاحب کو جمہوریت کا دشمن ثابت کردیا۔
جمہوریت کے مبینہ دشمن سے نجات پانے کا واحد ذریعہ یہ تصور ہوا کہ ان کی معیاد ملازمت میں توسیع نہ ہو۔ ان کی جگہ سید منصور علی شاہ صاحب الجہاد ٹرسٹ والی اپیل کے تحت سنائے فیصلے کی وجہ سے بلاکسی روک ٹوک کے 26اکتوبر2024ء کے روز سے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھال لیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کو ’’جمہوریت دشمن وِلن‘‘ کی حیثیت میں مشہور کردینے کے بعد منصور علی شاہ صاحب کی دیانتداری اور اصول پسندی کا ذکر تواتر سے شروع ہوگیا۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ وہ ایک نہایت جرأت مند شخص بھی ہیں۔ بڑھکیں لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے روبرو کوئی مقدمہ پیش ہو تو اس کے قانونی نکات پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ سماعتیں مکمل ہوجانے کے بعد جو فیصلہ لکھتے ہیں وہ قانونی اعتبار سے ہی ’’ثقہ بند‘‘ نہیں ہوتا۔ انگریزی زبان وادب کے دلدادہ افراد بھی ان کے لکھے فیصلوں میں لفظوں کے چنائو پر خوش گوار حیرت کا اظہار شروع کردیتے ہیں۔
بطور رپورٹر میں عدالتی معاملات کے بارے میں لکھنا 1988ء سے چھوڑچکا ہوں۔ میں نے جب رپورٹنگ کا آغاز کیا تو سپریم کورٹ کی عمارت اسلام آباد سے کہیں دور راولپنڈی کو پشاور سے ملانے والی سڑک پر تھی۔ موٹرسائیکل پر علی الصبح وہاں پہنچنا ایک عذاب تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے مگر لاہور ہائی کورٹ کے ہاتھوں سنائی قتل کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت 1978ء کے آخری اور 1979ء کے ابتدائی مہینوں میں ہورہی تھی۔ سیاسی اعتبار سے وہ اہم ترین مقدمہ تھا۔ مرحوم یحییٰ بختیار بھٹو صاحب کے وکیل تھے۔ ان کی شفقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان کے ہوٹل میں قائم دفتر نما کمرے میں بھی گھس جاتا۔ یوں ’’اندر کی خبر‘‘ کے علاوہ قانونی اعتبار سے اہم نکات بھی سمجھ لیتا۔ بعدازاں چار دنوں کے لئے بھٹو صاحب بذات خود اپنی اپیل کی حمایت میں بیان دینے بھی آئے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی تو میرا جی کورٹ رپورٹنگ سے بھرگیا۔ اہم سیاسی مقدمات کی سماعت کور کرنے کے لئے تاہم میری ڈیوٹی لگ جاتی۔ 1988ء میں جمہوریت بحال ہوئی تو پارلیمان اور خارجہ امور پر توجہ دینے لگا۔
سپریم کورٹ سے دوری کی وجہ سے مجھے اس کی اندرونی سیاست کا نہ تو علم ہے نہ اس میں دلچسپی لیتا ہوں۔ عدالتوں کے معزز ترین ججوں میں سے کسی ایک سے میں نے کبھی ’’مسیحا‘‘ برآمد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ رومانوی سوچ رکھتے ہوئے افتخار چودھری کا جنرل مشرف کو ’’انکار‘‘ پسند آیا تھا۔ اس کی وجہ سے عدلیہ بحالی کی جو تحریک چلی اس میں اپنی اوقات سے زیادہ حصہ بھی ڈالا۔ بالآخر نتیجہ مگر یہ نکالا کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔
عاشقان عمران کی اکثریت کو مگر کامل یقین تھا کہ اگر سید منصور علی شاہ صاحب چیف جسٹس تعینات ہوگئے تو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ’’فارم 45اور فارم 47‘‘ کا حساب لینا شروع ہوجائیں گے۔ متوقع حساب کے نتیجے میں ثابت ہوجائے گا کہ 8فروری 2024ء کے دن ہوا انتخاب ’’تحریک انصاف سے چرایا گیا تھا‘‘۔ یہ طے ہوگیا تو منصور علی شاہ صاحب ہی کی ایجاد کردہ ترکیب کے مطابق عمران خان اور ان کے حامیوں کو ’’مکمل انصاف‘‘ مل جائے گا۔ اس بحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں کہ شاہ صاحب سے عاشقان عمران جو امیدیں باندھے ہوئے تھے وہ درست تھیں یا نہیں۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے تاہم میں یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ شاہ صاحب سے تخت یا تختہ والی امیدیں باندھنے کے بعد تحریک انصاف کی ہر ممکن کوشش ہونا چاہیے تھی کہ فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد منصور علی شاہ صاحب ہی چیف جسٹس کے عہدے کیلئے چنے جائیں۔
آئین کی 26ویں ترمیم پاس ہوجانے کے بعد قومی اسمبلی کے 8اور سینٹ کے چار اراکین پر مشتمل کمیٹی نے تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو نئے چیف جسٹس کی صورت منتخب کرنا تھا۔ اس ضمن میں جو کمیٹی بنی اس میں شمولیت کے لئے تحریک انصاف نے تین نمائندوں-بیرسٹرظفر،گوہر خان اور حامدخان - کے نام بھی دئے۔ مذکورہ کمیٹی کے لئے جے یو آئی نے سینیٹر کامران مرتضیٰ کو چنا۔ پیپلز پارٹی کے تین نمائندے تھے۔ آپ کو انتہائی ذمہ داری سے یہ خبر دے رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر تحریک انصاف ان کے ساتھ مل کر منصور علی شاہ صاحب کو چیف جسٹس کے عہدے کے لئے منتخب کرنا چاہے گی تو وہ اور جمعیت العلمائے اسلام اس ضمن میں اس کا ساتھ دیں گے۔ یوں ہوجاتا تو مسلم لیگ (نون) اپنی پسند کے امیدوار کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ تحریک انصاف کے تینوں نما ئندے مگر حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ہوئے تمام تر ترلے منتوں کے باوجود آئین کی 26ویں ترمیم کے بعد قائم ہوئی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف ہی نہ لائے۔ بالٓاخر جب کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو وہاں موجود جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ واحد شخص تھے جنہوںنے منصور علی شاہ کا نام لیا۔ قرعہ بالآخر یحییٰ آفریدی کے نام نکلا۔ تحریک انصاف کی شاہ صاحب سے ’’محبت‘‘خوب صورت انجام تک پہنچ نہ پائی۔
تحریک انصاف کی جسٹس منصور علی شاہ سے ’’محبت‘‘ کا انجام
Oct 24, 2024