برطانیہ میں پاکستانی نژاد معروف کاروباری شخصیت چوہدری نجیب افسرکے صاحبزادے چوہدری عقیل افسر نے بتایا کہ برطانیہ ایک اچھا ملک ہے لیکن مجھے یہاں میرے گائوں مسکواری کی خوشبو نہیں آتی ۔میرے گھر کے تمام افراد پاکستان اپنے گائوں جانے کیلئے بے تاب رہتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے وطن کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ آج ہم بکھرتے چلے جارہے ہیں‘ قومی زندگی کے سب سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن سیلابوں کے مسلسل اور متواتر تھپڑوں کی زد میں ملک کے پونے دو کروڑ لوگ جن میں35لاکھ معصوم اور نوعمر بچے بھی شامل ہیں ان تنکوں کی تلاش میںہیں جن کے سہارے وہ ڈوبنے سے بچ سکیں لیکن وہ ابھی تک مسیحا کی تلاش میں ہیں۔ مجھے برطانیہ میں بیٹھ کر رونا آرہا ہے کہ ہر پاکستانی اپنے ملک سے پیار کرتا ہے لیکن پھر بھی ہم پستی کی طرف جارہے ہیں اور ہم ابھی تک اپنی پیاری دھرتی کو سنوار نہیں سکے۔ پاکستان کا بچہ بچہ ملک پاکستان کے گیت گاتا ہے لیکن ملک قرضوں میں ڈوب رہا ہے۔ 14اگست 1947 کو اپنے قیام سے لے کر اب تک پاکستان نے بہت سے نامساعد حالات اور بڑے بڑے طوفانوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا جس کی واضح مثال 2005 کے زلزلہ ہے۔ قوم نے بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بین الاقوامی تنظیم اوکسفارم نے یورپی یونین سے سفارش کی ہے کہ پاکستان میں امداد کے دروازے پاکستانی عوام اور این جی اوز کیلئے کھول دئیے جائیں اور براہِ راست اُن سے رابطہ رکھا جائے۔ یورپی یونین نے 70ملین یورو کی مدد کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ رقم عوام کی آباد کاری پر خرچ کی جائے نیٹو نے عوام کو بچانے اور انہیں ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ہیلی کاپٹرز دینے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اور ادویات فراہم کی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریاں اب بھی جاری ہیں اور اس کے اثرات نہ جانے کب تک پیچھا کرتے رہیں گے۔ سیلاب واقعی ہولناک تھا لیکن بین الاقوامی طاقتوں کو جواب کون دے گا کہ تباہی یکساں طورپر پھیلنے کی بجائے صرف جھونپڑیوں تک محدود کیوں رہی‘ اگر سیلاب کی شدت تباہ کن تھی تو پھر محلات اور جاگیریں اس کے غضب سے کیسے بچ گئیں؟ عذاب الٰہی صرف کچے مکانوں پر اترا ہے حکومت پاکستان نے ان خدشات کو دور کرنے کیلئے سفارتی سطح پر کردارادا کیا۔پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کیے گئے‘ موجودہ صورتحال میں یورپین ممالک میں تجارت کو فروغ دینے کیلئے لائحہ عمل تیار کیا گیا‘ یورپین حکام کو کسی حد تک قائل کیا گیا کیونکہ حالیہ سیلاب نے اقتصادی اور معاشی طورپر پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اور پیداواری شعبہ اس سے متاثر ہوا ہے ان حالات میں سفارت کار بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کوحقائق سے آگاہ کریں اور پاکستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کیلئے لابنگ کریں۔ صدر پاکستان دورہ برسلز کے دوران ناکامیاب ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ کو یوں تو خاصی اہمیت دی جارہی ہے لیکن یورپین حکام اسے وقت کا ضیاع قرار دے رہے ہیں کیونکہ یورپین اخبارات و جرائد پاکستان پر سیلاب کی صورتحال کے حوالے سے حکومت پر کافی تنقید کرچکے ہیں۔ جس سے صورتحال کافی پیچیدہ ہوگئی ہے۔ بیلجئم کی حکومت نے 5ملین یورو کے ساتھ ساتھ 40 ٹن پر مشتمل دوائیاں اور ضروری سازو سامان ارسال کیا ہے ۔بیلجئم کے وزیر برائے انٹرنیشنل افیئرز و ڈویلپمنٹ کارل میشلMichelنے پارلیمنٹ کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے معصوم عوام کو پانی سے نکالنے اور انھیں روزمرہ زندگی کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے دنیا آگے بڑھے‘ بیلجئم اور این جی اوز اپنا دل بڑا کرے اور مشکل کی اس گھڑی میں انسانیت کی خدمت کیلئے آگے بڑھیں۔ ان مشکل اور کٹھن حالات میں پوری کمیونٹی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوکر 16سالہ چوہدری عقیل افسرکی معصومانہ خواہش کو پورا کر رہی اور پاکستان کی مٹی کی خوشبو برطانیہ میں بھی پھیلا دیں تاکہ ہم سب متحد منظم ہوکر اپنی سوہنی دھرتی کو سنوار سکیں اور اسے مسائل کی دلدل سے باہر نکال سکیں۔