اسے قومی المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کےلئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے بے لوث اور مخلص کارکنوں کو فراموش کر دیا گیا حالانکہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم سے ایک ادنیٰ کارکن تک اگر اس جدوجہد میں کسی کا رتی بھر حصہ ہے تو بھی وہ قوم کے محسنوں میں شامل ہے۔ بدقسمتی سے جن قلوب و اذہان میں ایسی تڑپ اور سوچ موجود تھی کہ ان محسنوں کے کارناموں کو اجاگر کیا جائے ان کے پاس اس حوالے سے اپنی ذہنی آسودگی کا سامان نہیں تھا تاہم ایک مدت بعد جب قائد کے ایک سچے سپاہی غلام حیدر وائیں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب ملا تو اس نے قائد کے سپاہی ہونے کا حق یوں ادا کیا کہ جناب مجید نظامی کی مشاورت اور رہنمائی سے تحریک پاکستان کے کارکنوں کی خدمات کے اعتراف میں گولڈ میڈلز دینے کا آغاز کیا پھر نظریہ پاکستان کے دفاع اور فروغ کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا جو جناب مجید نظامی کی قیادت میں نظریاتی محاذ پر نئی نسل پر ہونے والے تہذیبی اور ثقافتی حملوں کا موثر انداز میں مقابلہ کر رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے کارکنوں کی یاد تازہ رکھنے کے سلسلے میں قائد کے ایک اور سپاہی حکیم آفتاب احمد قرشی نے بھی قابل قدر حصہ ڈالا اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کے حالات و واقعات کو اکٹھا کیا جسے ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان پنجاب یونیورسٹی نے کاروان شوق کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا حکیم آفتاب احمد قرشی نہ صرف خود مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم و متحرک کرنے والوں میں شامل تھے جو تحریک پاکستان کا ہراول دستہ تھا بلکہ ان کے والد گرامی شفا الملک حکیم محمد حسن قرشی نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بڑے خلوص سے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا انہیں مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے ذاتی معالج ہونے کا بھی شرف حاصل رہا حکیم آفتاب احمد قرشی کی وفات کے بعد کاروان شوق کا دوسرا حصہ حکیم اقبال احمد قرشی نے مرتب کرکے بڑے بھائی کے ادھورے مشن کی تکمیل کی اور کاروان شوق کے مسافروں کی روداد سفر قدم کے سامنے پیش کر دی خود حکیم آفتاب احمد قرشی ان پاکستانیوں میں شامل ہیں جنہیں ہر لحاظ سے پاکستانی کہا جا سکتا ہے دو سو چالیس صفحات پر مشتمل کاروان شوق نامی یہ کتاب خود ان کی پاکستانیت کا اظہار بھی سمجھا جا سکتا ہے جس میں تحریک پاکستان کے دو سو اٹھارہ کارکنوں کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن میں بعض کو گوشہ گمنامی سے نکالنے کا قابل تحسین فریضہ بھی انجام دیا گیا ہے مضبوط جلد اور عمدہ کاغذ پر شائع شدہ کتاب کی قیمت 250 روپے ہے ایسی کتابیں ہر پاکستانی کے گھر میں ہونی چاہیں تاکہ نئی نسل اپنے اسلاف کے قابل فخر کارناموں سے آگاہ ہو کر ولولہ تازہ حاصل کرے اور مقاصد پاکستان کی بجا آوری کے لئے کمربستہ رہے۔
الحمدللہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے قیام کے بعد پاکستان کے نظریاتی وجود کے تحفظ کے یقینی دفاع کا انتظام ہو گیا ہے نئی نسل بالخصوص سکولوں کی سطح کی نوخیز نسل کی اس حوالے سے ذہنی تربیت بالآخر نظریاتی سرحدوں پر ایک ایسا دفاعی حصار ثابت ہو گی کہ کوئی پاکستان دشمن طاقت اسے گرا نہیں سکے گی حکیم اقبال قرشی کی کتاب کاروان شوق بھی اس دفاعی حصار کا حصہ ہے جس میں تحریک پاکستان کے قدآور رہنماوں کے ساتھ ساتھ گمنام کارکنوں کی خدمات کو بھی منظرعام پر لایا گیا ہے جن کا زیادہ تر تعلق امرتسر‘ جالندھر اور مشرقی پنجاب کے دیگر علاقوں سے ہے جس سے تحریک پاکستان میں پنجابیوں کی قابل فخر خدمات پر روشنی پڑتی ہے جو بلاشبہ پنجاب کی آزادی نہیں بلکہ پاکستان کے قیام اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے تھیں۔