تیونس کے سابق صدر نے اعلان کر دیا کہ رمضان کے مہینے میں اگر کوئی چاہے تو کھا پی سکتا ہے اور پھر خود انہوں نے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے اورنج جوس کا گلاس اٹھایا اور غٹا غٹ پی گئے۔ یہ تیونس کے صدر حبیب بورگیہ کے دور حکومت کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ کو مذہبی لوگ بھی دیکھ رہے تھے۔ صدر موصوف چاہتے تو مذہبی جذبات مجروح کرنے کی بجائے یہ سبق بھی سکھا سکتے تھے کہ اگر کوئی مریض ہے اور کام کاج کے دوران ہی اسے کھانے پینے کی حاجت ہے تو وہ علیحدہ ہو کر کھا پی سکتا ہے مگر اس طرح جذبات مشتعل کرکے ایک مسلم ملک کا صدر اپنی قوم کو کیا پیغام دے رہا تھا؟ اور پھر اس کے برعکس 1984ءمیں تیونس 1154 انٹرمیڈیٹ کالجوں میں مساجد تعمیر کی گئیں۔ لڑکیوں نے کالجوں، یونیورسٹیوں میں اسلامی لباس پہننے پر اصرار کیا جبکہ ان میں اکثر کے والدین سیکولر ذہن کے تھے جو یہ باتیں تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یوں تیونس کے اندر ایک عجیب سی کشمکش کا ماحول پیدا ہو گیا۔
مسلمانوں کے مذہبی جذبات مشتعل کرکے انہیں ایک Reaction کی طرف لانے کی یہ پالیسی کافی عرصے سے چل رہی ہے اور دنیا میں ”دکھ اور پھر اشتعال“ کی ایک ایسی کہانی بنا دی گئی ہے کہ سکھ چین امن اور سکون کا نام ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو مسلسل مشتعل کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرزمین پر امریکہ سے پہلے برطانیہ کو تلخ تجربات ہو چکے تھے۔ انیسویں صدی کے وسط میں افغانستان کے شاہی اور قبائلی جنگجوﺅں نے برطانیہ کو شکست دی تھی اور اس وقت کی ”دی گریٹ گیم“ میں انہیں روسی فتح منددکھائی دیتے تھے اور یوں برطانیہ کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جمی کارٹر بھی اس خیال میں مبتلا ہو گئے کہ سوویت یونین کا افغانستان پر اثر انداز ہونے کا مطلب ہے کہ تیل کے ذخائر اور تجارتی آمدورفت انہی کے زیر اثر رہے گی اور اس وقت صورتحال یہ تھی کہ کابل سے فرار ہونے والی برطانوی فوج کے 12ہزار فوجیوں میں سے 121 جان بچا کے ہندوستان میں داخل ہوگئے۔ اس لئے برطانیہ کے افغانستان کی سرزمین کے ساتھ اپنے ہی مسئلے رہے ہیں جبکہ امریکہ نے روس کے خلاف کیا منصوبہ سازی کی؟ اور کن لوگوں کو اپنے مفادات کے لیے کیا کیا تربیت فراہم کی۔
یہ سب راز و نیاز CIA اور امریکی افواج اچھی طرح سے جانتے ہیں اور آج منظرنامہ نیا نیا سا ترتیب دیا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک طرف روس کو دہشت گردوں کے خلاف اتحادی بنا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کو مفادات کے حصول کے لئے سمجھوتے کی چادر میں لپیٹ کر اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اور یہ بات مانے بغیر کہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے سوال میں بہت کچھ ایسا ہے کہ جو حالات کو بہتر رکھنے کے لئے خود ہمارے لوگ بھی جانتے ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ کابل میں امریکی سفارت خانے پر آئی ایس آئی کی مدد سے حملہ ہوا ہے اور پھر یہ کہ خفیہ کارروائیوں سے پاکستان خطے میں باعزت مقام کھو رہا ہے۔ ہمیں عزت سے رہنے دیا جائے گا تو ہم عزت سے رہیں گے۔ تعلقات صرف اور صرف مفادات کی بنیاد پر ہوں گے تو معاملات شکوک و شبہات سے آگے نہیں جا سکیں گے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ کبھی تو سارا کام ہی ”سوویت مخالفت“ میں ہم سے لیا جاتا ہے اور کبھی ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کروائی جا رہی ہے۔ جبکہ ان سارے قصوں میں منشیات کا پیسہ بھی پروان چڑھایا گیا اور پھر کام میں بھی لایا گیا تھا۔ آج اقوام متحدہ میں ”فلسطین کے لئے بھی قرارداد پیش ہو چکی ہے۔ امریکہ نے اس موقع پر کہا تھا کہ ہم ”ویٹو“ کریں گے جبکہ فرانسیسی صدر نے کہا کہ اس طرح تشدد کا نیا دور شروع ہو گا۔ امریکہ دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کو بھی تخریب کاری یا پُرتشدد قرار دیا گیا۔ مسئلہ حل کرانے میں سنجیدگی اختیارکرے تو بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ آج عرب دانشور، شاعر، ادیب امریکہ کی کسی بات پر اعتماد کرنے کو تیارنہیں ہیں کیونکہ امریکہ فلسطین کے معاملے میں کرائی گئی کسی یقین دہانی پر پورا نہیں اترا بلکہ اسرائیل کے عسکری ساز پالیسی بنانے والوں کی بات سنتا رہا اور عراق کی جنگ اسرائیل کے لئے تسکین کا باعث بنی رہی ہے۔ آج امریکہ، عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر اور پھر دیگر مسلمانوں کے خلاف ایسی باتیں کرتا ہے کہ جو ان کے جذبات کو مشتعل کرنے کا سبب ہے اور پھر محبت، امن اور سکون کی بات دشوار ہونے لگتی ہے۔ دنیا میں نفرت کے جذبات بھڑکنے لگتے ہیں مگر کیا کبھی امریکہ نے اسرائیل کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ کتنا فرشتہ صفت ہے؟ کیا کبھی کوئی امریکی حکومت اسرائیل کے خلاف بھی ایسی باتیں کرے گی کہ جو آج پاکستان کو سنائی جا رہی ہیں۔ امریکہ کے واحد صدر آئزن ہاور تھے کہ جنہوں نے 1957ءمیں اسرائیلیوں کوسینائی اور غزہ کی پٹی سے باہر نکال دیا تھا۔ آج کسی امریکن صدر کی جرات نہیں کہ انصاف کی بات کر سکے۔ آج وہ روس کو اتحادی بنا رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ چل رہا ہے جبکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے نام پر پاکستان کو ساتھ ملا کر چلنے کے نام پر پاکستان کو سپانسرمحفوظ کر دیا گیا ہے۔ ذرا سوچیں آج کوئی بھی پاکستانی لیڈر یا عوام رمضان میں اورنج جوس پی کر اپنے ہی عوام کو مشتعل کرنے کا سبب کیسے بن سکتا ہے؟ کیا امریکہ کی اس قسم کی فرمائشیں کچھ عجیب و غریب سی نہیں ہیں؟ جبکہ افغان عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کے لیے کابل میں پوسٹرز آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ اگر افغان اور پاکستان میں نفرت کی ہوا پھیل جاتی ہے تو کیا امریکہ دنیا کو امن اور محبت کا پیغام دینے میں کامیاب ہو جائے گا؟
مسلمانوں کے مذہبی جذبات مشتعل کرکے انہیں ایک Reaction کی طرف لانے کی یہ پالیسی کافی عرصے سے چل رہی ہے اور دنیا میں ”دکھ اور پھر اشتعال“ کی ایک ایسی کہانی بنا دی گئی ہے کہ سکھ چین امن اور سکون کا نام ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو مسلسل مشتعل کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرزمین پر امریکہ سے پہلے برطانیہ کو تلخ تجربات ہو چکے تھے۔ انیسویں صدی کے وسط میں افغانستان کے شاہی اور قبائلی جنگجوﺅں نے برطانیہ کو شکست دی تھی اور اس وقت کی ”دی گریٹ گیم“ میں انہیں روسی فتح منددکھائی دیتے تھے اور یوں برطانیہ کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جمی کارٹر بھی اس خیال میں مبتلا ہو گئے کہ سوویت یونین کا افغانستان پر اثر انداز ہونے کا مطلب ہے کہ تیل کے ذخائر اور تجارتی آمدورفت انہی کے زیر اثر رہے گی اور اس وقت صورتحال یہ تھی کہ کابل سے فرار ہونے والی برطانوی فوج کے 12ہزار فوجیوں میں سے 121 جان بچا کے ہندوستان میں داخل ہوگئے۔ اس لئے برطانیہ کے افغانستان کی سرزمین کے ساتھ اپنے ہی مسئلے رہے ہیں جبکہ امریکہ نے روس کے خلاف کیا منصوبہ سازی کی؟ اور کن لوگوں کو اپنے مفادات کے لیے کیا کیا تربیت فراہم کی۔
یہ سب راز و نیاز CIA اور امریکی افواج اچھی طرح سے جانتے ہیں اور آج منظرنامہ نیا نیا سا ترتیب دیا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک طرف روس کو دہشت گردوں کے خلاف اتحادی بنا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کو مفادات کے حصول کے لئے سمجھوتے کی چادر میں لپیٹ کر اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اور یہ بات مانے بغیر کہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے سوال میں بہت کچھ ایسا ہے کہ جو حالات کو بہتر رکھنے کے لئے خود ہمارے لوگ بھی جانتے ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ کابل میں امریکی سفارت خانے پر آئی ایس آئی کی مدد سے حملہ ہوا ہے اور پھر یہ کہ خفیہ کارروائیوں سے پاکستان خطے میں باعزت مقام کھو رہا ہے۔ ہمیں عزت سے رہنے دیا جائے گا تو ہم عزت سے رہیں گے۔ تعلقات صرف اور صرف مفادات کی بنیاد پر ہوں گے تو معاملات شکوک و شبہات سے آگے نہیں جا سکیں گے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ کبھی تو سارا کام ہی ”سوویت مخالفت“ میں ہم سے لیا جاتا ہے اور کبھی ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کروائی جا رہی ہے۔ جبکہ ان سارے قصوں میں منشیات کا پیسہ بھی پروان چڑھایا گیا اور پھر کام میں بھی لایا گیا تھا۔ آج اقوام متحدہ میں ”فلسطین کے لئے بھی قرارداد پیش ہو چکی ہے۔ امریکہ نے اس موقع پر کہا تھا کہ ہم ”ویٹو“ کریں گے جبکہ فرانسیسی صدر نے کہا کہ اس طرح تشدد کا نیا دور شروع ہو گا۔ امریکہ دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کو بھی تخریب کاری یا پُرتشدد قرار دیا گیا۔ مسئلہ حل کرانے میں سنجیدگی اختیارکرے تو بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ آج عرب دانشور، شاعر، ادیب امریکہ کی کسی بات پر اعتماد کرنے کو تیارنہیں ہیں کیونکہ امریکہ فلسطین کے معاملے میں کرائی گئی کسی یقین دہانی پر پورا نہیں اترا بلکہ اسرائیل کے عسکری ساز پالیسی بنانے والوں کی بات سنتا رہا اور عراق کی جنگ اسرائیل کے لئے تسکین کا باعث بنی رہی ہے۔ آج امریکہ، عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر اور پھر دیگر مسلمانوں کے خلاف ایسی باتیں کرتا ہے کہ جو ان کے جذبات کو مشتعل کرنے کا سبب ہے اور پھر محبت، امن اور سکون کی بات دشوار ہونے لگتی ہے۔ دنیا میں نفرت کے جذبات بھڑکنے لگتے ہیں مگر کیا کبھی امریکہ نے اسرائیل کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ کتنا فرشتہ صفت ہے؟ کیا کبھی کوئی امریکی حکومت اسرائیل کے خلاف بھی ایسی باتیں کرے گی کہ جو آج پاکستان کو سنائی جا رہی ہیں۔ امریکہ کے واحد صدر آئزن ہاور تھے کہ جنہوں نے 1957ءمیں اسرائیلیوں کوسینائی اور غزہ کی پٹی سے باہر نکال دیا تھا۔ آج کسی امریکن صدر کی جرات نہیں کہ انصاف کی بات کر سکے۔ آج وہ روس کو اتحادی بنا رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ چل رہا ہے جبکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے نام پر پاکستان کو ساتھ ملا کر چلنے کے نام پر پاکستان کو سپانسرمحفوظ کر دیا گیا ہے۔ ذرا سوچیں آج کوئی بھی پاکستانی لیڈر یا عوام رمضان میں اورنج جوس پی کر اپنے ہی عوام کو مشتعل کرنے کا سبب کیسے بن سکتا ہے؟ کیا امریکہ کی اس قسم کی فرمائشیں کچھ عجیب و غریب سی نہیں ہیں؟ جبکہ افغان عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کے لیے کابل میں پوسٹرز آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ اگر افغان اور پاکستان میں نفرت کی ہوا پھیل جاتی ہے تو کیا امریکہ دنیا کو امن اور محبت کا پیغام دینے میں کامیاب ہو جائے گا؟