گزشتہ اےک دہائی سے وطن عزےز غربت، بےروزگاری دہشت گردی اور بدامنی کی لعنتوں کا شکار ہے اور خصوصاً پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران موجودہ حکمران اتحاد کی ناقص حکمت عملی کے نتےجے مےں حالات دگرگوں ہوگئے ہےں اور کچھ تو بےن الاقوامی کساد بازاری اور کچھ پاکستان کی داخلی صورت حال مےں مسلسل بگاڑ سے اصلاح احوال کا سلسلہ رک گےا ہے تاہم غرےبوں ناداروں اور علاج معالجہ اور تعلےم کی سہولتوں سے محروم لوگوں کے معاشی حالات سنوارنے کے لئے بعض نےک اور خدا ترس شخصےات سامنے آرہی ہےں جو ےقےناً غربت کی سنگےنی مےں کمی کا باعث ضرور بن سکےں گی۔ ےہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں ہمارے بعض کالم نگار حضرات نے اس قسم کی تجاوےز پےش کی ہےں جو نہ صرف قابل عمل ہےں بلکہ اگر قومی اور ملکی سطح پر اس اقدام پر عمل درآمد کےا جائے تو عوام الناس کو خاصا رےلےف مل سکتا ہے انہی شخصےات مےں ہماری کالم نگار مسرت قےوم صاحبہ ”غربت مکاو¿“ تحرےک مےں پےش پےش ہےں اور ان کیجانب سے بڑی مفید تجاوےز منظرعام پر آگئی ہیں انہوں نے زکوٰة بنک کے نام سے اےک اےسا منصوبہ پےش کےا ہے جس کے ذرےعے غربت کی لعنت میں خاطرخواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔
پاکستان کی بدنصےبی ےہ ہے کہ ےہاں زکٰوة سسٹم پر عمل درآمد مےں بعض اےسی تفصےلات معلوم ہوئی ہےں جن سے پتہ چلتا ہے کہ نظام زکٰوة چلانے والے سرکاری اہلکار ایسے دےنی مذہبی فرےضے کی اہمےت سمجھنے کے باوجود خدا خوفی سے عاری ہیں اور زکٰوة کے شعبے مےں غبن اور بدعنوانےوں کی شکاےات عام ہےں لوگ خوب جانتے ہےں کہ جب زکٰوة کی تقسےم کے سرکاری محکمے کے قےام سے اس نےک فرےضے کی انجام دہی زیادہ موثر نہےں کےونکہ خوشحال طبقوں کے اصحاب خود اپنے ہاتھوں سے آس پاس رہنے والے نادار افراد کو زکٰوة کی رقوم ادا کرتے تھے لےکن اس شعبے کے سرکای تحوےل مےں جانے سے نہ صرف مخےر اور اہل ثروت طبقات کی جانب سے غرےبوں کو زکٰوة کی ادائےگی کا سلسلہ خاصا متاثر ہوا بلکہ زکٰوة فاو¿نڈےشن کی جانب سے ناداروں کو مالی امداد کی ادائےگی کا عمل اتنا پےچےدہ بنا دےا گےا کہ پہلے سے زکٰوة وصول کرنے والے سخت پرےشانےوں کا سامنا کرنے لگے اور المےہ ہے کہ وطن عزےز مےں اےک اہم مذہبی فرےضے کی انجام دہی مشکلات کا شکار ہوگئی ےہی نہےں بلکہ سسٹم کے تحت ہر سال ےکم رمضان کو بنکوں مےں جن اصحاب کے اکاو¿نٹس سے زکٰوة کی کٹوتی ہورہی ہے ان مےں سے اکثر وبےشتر نے اپنے ہاتھوں سے اگرچہ غرےبوں کو زکٰوة دےنے کا سلسلہ بند کردےا تاہم اب بھی بعض متمول گھرانوں کے لوگ خود اپنے ہاتھوں سے زکٰوة کی تقسےم جاری رکھے ہوئے ہےں اور دوہرا ثواب کمارہے ہےں مسرت قےوم صاحبہ نے اس شعبہ کے لئے زکٰوة بنک قائم کرنے کی تجوےز دی ہے جس کے تحت ہر ضلع میں یہ بنک قائم کئے جاسکتے ہےں۔ متعلقہ طبقوں کے مخےر اصحاب اپنی استطاعت کے مطابق رقوم جمع کرائےں اور اس بارے مےں جو خصوصی اکاو¿نٹ کھولے جائےں گے ان مےں سے غرےب خاندانوں کو چھوٹے موٹے کاروبار کرنے کے لئے کچھ رقوم دی جائےں جن کے صحےح استعمال کی نگرانی کا بھی خاطرخواہ سسٹم نافذ کےا جائے اس نظام کو چلانے کے لئے اےک منفرد تجوےز ےہ بھی ہے کہ زکٰوة بنکوں سے تعاون کے لئے ملک بھر کے بڑے تاجروں صنعت کاروں اور بڑے زمےنداروں سمےت اہل ثروت ....کی نمائندہ تنظےموں سے رابطہ پےدا کےا جائے اس بارے مےں ہر علاقے کے اےوان صنعت وتجارت سے اشتراک عمل بھی اپناےا جاسکتا ہے۔
نچلے اور غرےب طبقے کو رےلےف دےے کے لئے ایک اہم تجوےز ےہ بھی ہے کہ شادی بےاہ سمےت مختلف نوعےت کی تقرےبات اور اجتماعات کے علاوہ بڑے اداروں اور تنظےموں کے زےراہتمام منعقدہ ظہرانوں اور عشائےوں کی محفلوں مےں استعمال ہونے والے انواع و اقسام کے جو کھانے دےگوں اور بڑی ڈشوں مےں بچ پائےں انہےں ضائع کرنے کی بجائے بڑی احتےاط سے بند اور محفوظ کرکے فرےزر مےں رکھواےا جائے اور اس خوراک کو کچی آبادےوں اورغرےب لوگوں کی بستےوں مےں تقسےم کے لئے ارسال کردےا جائے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے مسرت قےوم صاحبہ نے ،جو لاہور کے حجاز ہسپتال مےں ڈائریکٹر فنڈنگ اور شعبہ اطلاعات کی چےرمےن کی اعزازی ذمہ دارےاں بھی سنبھالے ہوئے ہےں، منفرد تجاوےز تےار کی ہےں جن مےں کہا گےا ہے کہ کھانے کی تقسےم کے لئے اس مستقل کام کی خاطر لنگر خانے بنائے جائےں اور اس منصوبے کے لئے فی الحال ابتدائی کام صوبہ پنجاب سے شروع کےا جائے اور وزےراعلیٰ مےاں محمد شہباز شرےف کا تعاون بھی حاصل کےا جائے تجاوےز مےں کہا گےا ہے کہ پبلک پرائےوےٹ پارٹنرشپ کے طرےق کار سے اس قسم کا پراجےکٹ کامےاب بناےا جاسکتا ہے اور اس سے اےک تو روزانہ لاکھوں روپے کی خوراک اور خصوصاً پکے پکائے کھانے کا ضےاع روکا جاسکے گا تو دوسری جانب نچلے طبقوں کو کھانے پےنے کی سہولت دستےاب ہوسکے گی تجاوےز مےں کہا گےا ہے کہ اگر اس قسم کے پراجےکٹ کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی حکومت کا اشتراک عمل ممکن ہوا تو کھانے کی پےکنگ لانے اور لے جانے کے لئے موٹر گاڑےوں کا بندوبست کےا جاسکتا ہے دےکھنا ےہ ہے کہ حکومت اس سلسلے مےں کہاں تک مدد دےتی ہے۔