جب کسی ملک، معاشرے میں خیر و شر میں تمیز ختم ہو جائے اور گناہ کی چھا¶ں میں نیکی اور نیکی کی آڑ میں گناہ ہونے لگے۔ مذہب کو ایک محفوظ سیاسی حصار بنا لیا جائے تو یہ علامت منفی نہیں مثبت ہوتی ہے اور حالات کے بدلنے کا فاعل بظاہر نظر نہیں آتا مگر ایک ایسی بیداری کروٹ لیتی ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ ع ”از کجا مے آید ایں آوازِ دوست“ یہ آواز دوست کہاں سے آ رہی ہے۔ انسانوں کے ہجوم اور اجتماعی وزڈم ہی قیادت صالحہ کو جنم دیتی ہے۔ جب بھی کسی معاشرے میں تاریکی بڑھ جاتی تو یہی عوام الناس ہی اپنے میں سے زیادہ اہم کو کاندھوں پر بٹھا لیتے ہیں لیکن ایک بات کوئی بھی بھولنے کی کوشش نہ کرے کہ انقلاب پہلے آتا ہے نظام بعد میں۔ اکثر لوگ سیاسی انقلاب کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ چیزیں الٹ پلٹ ہو گئیں ایسا نہیں۔ انقلاب کا مطلب ہے کہ کوئی چیز الٹی پڑی تھی اسے عوامی قوت نے سیدھا کر دیا۔ پاکستان کے غریب عوام فصل کے غریب ضرور ہیں مگر اصل کے غریب نہیں، اب ایک ایسی بیداری پیدا ہو چکی ہے جو خوابوں سے نکل کر حقائق کے دائرے میں داخل ہو گی، جو سیاست کے بزر جمہر ہیں وہ دولت کی سرداری کرتے کرتے بالآخر تہی دست ہو جائیں گے۔ دنیا کی تاریخ ہے کہ ریفارمرز نے کبھی امراءکے طبقے کو آواز نہیں دی وہ غریب لوگوں کے مضبوط شانوں کے زور پر تبدیلی لائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امراءکا استحصالی طبقہ صرف تعیش کے طریقے ایجاد کر سکتا ہے اور دولت کو اپنی تجوریوں میں مرتکز کر کے صنعت و حرفت کا کام غریبوں سے لے کر منافع خود وصول کرتا ہے۔
اسلام کا نظامِ سیاست بھی ایک انقلاب سے شروع ہوا جب جزیرہ نمائے عرب میں تبدیلی آئی تو اُس کے پیچھے پیچھے ہی ایک نظامِ حکومت آیا جس کی بنیاد اس لئے عدل پر تھی کہ انقلاب کی ہیبت طاری تھی۔ یہ دنیا انسانوں کی محنت گاہ ہے، اور اس کے بارے ایرانی شاعرہ پروین اعتصامی کا یہ شعر ایک کلید ہے
خرم است آں کس دریں محنت گاہ
خاطرے را باعثِ تسکین است
اس جہانِ رنگ و بو میں وہ شخص ہی خوشحال ہے جو کسی کے دل کے لئے باعثِ تسکین ہے۔ جب خوشی کے ذرائع اور تصورات بدلتے ہیں تو معاشرے اُس انسانی بلند اخلاقیات کی طرف بڑھتے ہیں جس کی نوید قرآن حکیم نے یوں دی کہ ہم نے ہی انسان کو بہترین پیدا کیا اور پھر اُسے پاتال کی پستیوں میں دھکیل دیا۔ آیت کریمہ کے دونوں حصے بظاہر ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن اکثر اضداد ہی میں اثبات کے قرینے موجود ہوتے ہیں اور زیادہ گہری سوچ کے باعث ہم دور رہتے ہیں۔ اللہ نے پہلے اپنی مرضی ظاہر کی کہ تخلیقِ انسان کا یہ مقصد تھا کہ اسے بہترین تشکیل دی جائے لیکن انسان نے حیوانیت اختیار کرنے کو ترجیح دی اور ہم نے اسے سزا کے طور پر اُن پستیوں میں پھینک دیا جن کو آج ابلیس بلندیاں بنا کر دکھا رہا ہے اور بلندیوں کو پستیاں۔ یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ کائنات میں طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے اور جو اس کی عطا کردہ طاقت کو چاہے خیر و شر کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ گویا طاقت اللہ دیتا ہے اور نیت بندہ باندھتا ہے، یہیں سے اختیار کا فلسفہ پیدا ہوتا ہے تاکہ انسان جبر کے خیمے تلے گھس کر کوئی معذوری ظاہر نہ کر سکے۔ ہمارے موجودہ سیاستدان کوئی پتھر کے صنم نہیں کہ اپنی ناک پر بیٹھی مکھی اُڑا نہ سکیں، اگر وہ چاہیں تو اس ملک کی وہ خدمت کر سکتے ہیں جس کی بنیاد بابائے قوم قائداعظم نے رکھی تھی۔ یہ سمجھ لینا کہ فلاں جماعت بہت بُری ہے، فلاں بہت کرپٹ ہے، فلاں ملک ہمارا ازلی دشمن ہے، امریکہ ہماری جڑیں اکھیڑنا چاہتا ہے یہ سب انگور کھٹے ہیں کی تفسیریں ہیں۔ اگر کوئی آپ کا ازلی دشمن ہے تو اس کو شکست دینے کے لئے آپ نے سوائے نفرت انگیزی کے لفظی اسلحے کے اور کونسا اسلحہ تیار کیا ہے۔ اگر کوئی کرپٹ ہے تو ملک میں موجود بڑے بڑے شیوخ الاسلام اور دیگر ارباب علم و حکمت نے اُن کو کبھی قریب جا کر دلائل سے ہدایت پر لانے کی کوشش کی ہے۔ بنو قریش اور کفار مکہ کی ہٹ دھرمیوں اور گمراہیوں کو رسول اللہ نے اپنی شیریں سخن سے اور اپنے کردار سے کیسے ابوبکر و عمر، علی و عثمان رضی اللہ عنھم میں بدل دیا اور اُن کی دیکھا دیکھی عوام الناس نے اس شاہراہ پر مارچ شروع کر دیا۔ جو بھی کسی کے کردار اور اندازِ سیاست پر اعتراض کرتا ہے وہ اپنی سی اصلاح کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن منبر و محراب کیوں بے اثر ہیں، ریلیاں جلوس مظاہرے دھرنے احتجاج کیوں اصلاح نہیں لا سکتے، وجہ صرف یہ ہے کہ ہم خود صاحبِ کردار نہیں اور یہ کردار ہی ہے جو ایک چیونٹی کو بھی رابرٹ بروس کا استاد بنا دیتا ہے۔ اگر کوئی امر بالمعروف اور نہی من المنکر کے دو اسلامی سیاست کے اصول ہی اپنا لے تو اس معاشرے میں کسی کو بے اعتدالی، ظلم، جبر اور لوٹ مار کی جرا¿ت ہی نہ ہو۔ رشوت دینے والے ہیں تو رشوت لینے والے بھی ہیں۔ ہمارے قائدین کو ہمارے دانشوروں نے بھی اپنے قلم سے کچھ نہ سکھایا، صرف ایک ہی ہدف رہا کہ اللہ نے علم دیا ہے تو جو چوکھی قیمت دے اُس کے ہاتھ بیچ دو، کیا آج یہی دوڑ نہیں لگی ہوئی۔ صاحبِ علم تو اپنی نکتہ وری سے اتنی امیری حاصل کر لیتا ہے کہ وہ دولت مندی کو لات مارنے کو بھی اپنی توہین سمجھتا ہے۔ یہ سب باتیں تاریخِ جہاں کے بڑے لوگوں میں دیکھی جا سکتی، مگر ان کی پیروی کی لذتوں سے بے خبروں سے تو بالآخر زورِِ قلم بھی چھن جاتا ہے۔ اگر مشینری خراب ہے تو اُسے ٹھیک کرنے کا ہُنر جاننے والوں نے بھی تو اپنی ذات سے باہر نکل کر اصلاح کی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں میں ایک بیماری بڑی قدیم ہے جس نے اُنہیں آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے اور وہ ہے دوسرے ملکوں، قوموں اور نظاموں کو بُرا کہنا، اگر کوئی ہمارے فخرِ دوعالم کی توہین کرتا ہے تو یہ دلیل ہے ہمارے کمزور ہونے کی، اگر طاقت ہوتی، ہُنر ہوتا، سائنسز پر حکمرانی ہوتی تو کسی کو یہ گستاخانہ فلم بنانے کی جرا¿ت ہی نہ ہوتی۔ ہم نے طاقت کے فلسفے کو سمجھا نہ اُس کے صحیح استعمال کو اور سیاست کو اپنا بنگلہ سجانے کا وسیلہ بنا دیا۔ کہئے ایسے میں کیوں نہ ہم اضحوکہ بنیں، کیوں نہ ہمیں روندا جائے، آج ڈیڑھ کروڑ مسلمان اگر جھاگ نہ ہوتے تو ان کی سونامی کے آگے ہمالہ بھی نہ ٹھہر سکتا۔ اختلاف برائے اختلاف دشمنی برائے دشمنی تو ایک افیون ہے جس کے عادی ہو کر ہم مستی میں ہیں، ہستی میں نہیں۔