جمعة 21 ستمبر 2012ءحکومت پاکستان نے دلدوز اور جانکاہ اسلامی جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرنے والی ایک یہودی فلم ساز کی فلم پر عام تعطیل کا اعلان کیا لیکن جو کچھ اس کے نتیجے میں ہوا وہ کسی بھی بزعم خویش ذمہ دار جمہوری روایات‘ اسلامی اور فلاحی طرز عمل کی دعوے دار اور نام نہاد علمبردار ریاست کے لئے بدنامی کا باعث ثابت ہوا۔ 19 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ 70 سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ہمارے پاکستانی چینل دوسرے اسلامی ممالک کا اس فلم کے حوالے سے احتجاج دکھا رہے تھے جس میں مشرق وسطی اور افریقہ کے ممالک شامل تھے جو انتہائی صبر و تحمل اور نظم و ضبط کے ساتھ احتجاج کر رہے تھے پوری دنیائے انسانیت میں اسلامی ممالک کی طرف سے کسی قسم کی توڑ پھوڑ‘ جلا¶ گھیرا¶ اور لوٹ مار کی خبریں نہیں آرہی تھیں کیا ہماری وفاقی حکومت کے حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ نے سیاسی ہیرا پھیرا‘ دولت کی لوٹ کھسوٹ کا شعور تو دیا ہے تو کیا اتنا شعور حاصل نہیں تھا کہ ملک خداداد پاکستان چاروں اطراف سے دہشت گردی کا شکار ہے وہ بھی ہماری اپنی سیاسی اور قومی نالائقیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے ہے تو اس طرح کی تعطیل کا اعلان کر دینے سے گویا ان عناصر کو کھلی چھٹی دے دی گئی تاکہ ان میں وہ غلیظ عناصر بھی داخل ہو جائیں جن کا تعلق کالعدم تنظیموں اور دہشت گرد تنظیموں سے ہے یا وہ عناصر جو پہلے سے ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلانے کے لئے امریکی نفرت کے اظہار کی روشنی میں پاکستان میں گل کھلا رہے ہیں یہ بالکل درست ہے کہ او آئی سی کا اجلاس بلایا جانا چاہئے جس میں ایک مستحکم قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کو باور کروایا جائے کہ وہ آئندہ ناموس رسالت کے حوالے سے نازیبا خاکوں اور نازیبا فلموں کی تشہیر کا سختی سے نوٹس لے اور اےسا کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے اقوام متحدہ کا ےہ فرض ہے کہ وہ 57 اسلامی ممالک کے اسلامی اور قرآنی جذبات و احساسات کا خےال رکھتے ہوئے تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے قانون سازی کرے‘ اسلام دنےا مےں امن اور سلامتی کا پےغام پےش کرتا ہے۔ حضور رحمت اللعالمےن بن کر دربار الہےہ سے تشرےف لائے ان کے حوالے سے اس طرح گھناو¿نی سازش خواہ امرےکےوں کی ہو ےا ےہودےوں کی ہو کبھی برداشت نہےں کی جائے گی۔ پوری دنےائے اسلامی بالعموم پاکستان کے مسلمان بالخصوص سرور کونےن پر جان قربان کرنا ایمانی فرےضہ سمجھتے ہےں۔ گھناو¿نے اور نازےبا خاکے بنانے والوں ناموس رسالت پر غلےظ حملے کرنے والوں کو مسلمان کبھی معاف نہےں کرےں گے۔ حرمت رسول کے حوالے سے عشق کے جذبات و احساسات اپنا رنگ ضرور دکھائےں گے۔
دُکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ حضرت قائداعظمؒ کی وفات کے بعد سےاسی اور قومی بدانتظامی اور بے شرمی کی سےاست کا جو آغاز ہوا اس نے ہر مالی اور مادی مفادات کا تحفظ تو کےا مگر قومی اور ملکی غےرت و حمےت سے کوئی واسطہ نہےں رکھا۔ بھارت نے گاندھی فلم بنائی اور پاکستان کے مسلمان فلم سازوں‘ جاگےرداروں اور سرماےہ داروں کو ےاکسی بھی حکومت وقت کو شرم و حےا نہ آئی کہ ہم اپنے قائداعظمؒ پر اےسی فلم بنائےں جس سے قائداعظمؒ کے سارے کارہائے نماےاں پاکستان مےں ہی نہےں بلکہ عالم اسلامی مےں اجاگر ہوتے‘ سےاسی اور قومی حلقوں کے دانشو واران کرام کا نقطہ نظر ےہ ہے ناموس رسالت کے حوالے سے دی جانے والی مکمل چھٹی کے حوالے سے ہر شہر سے سےاسی اور قومی قائدےن اپنی نگرانی مےں احتجاجی جلوس نکلواتے اور ان جلوسوں کی خود نگرانی کرتے اےسے قومی شعور اور قومی احساس کی تخلےق کب ہو گی اور آنے والے دور مےں پاکستان کے مقدر کا کےا فےصلہ ہو گا۔ مولانا ظفر علی خان نے کےا صحےح فرماےا:
جب تک نہ مےں کٹ مروں خواجہ ےثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل مےرا اےماں ہو نہےں ہو سکتا
حرمت رسول اور جذبہ عشق
Sep 24, 2012