سرکار کے مال کو ہضم کرنا اور ڈکار بھی نہ مارنا ہمارا قومی وطیرہ رہا ہے گزرے ساٹھ سالوں کے دوران نائب قاصد سے لے کر کمشنر اور سپاہی سے لے کر آئی جی تک سب لوگ حسب استطاعت اور اپنی جرات کے مطابق سرکاری مال واملاک کا استحصال کرتے رہے ہیں انہیں کسی نے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ قومی مال کو مال مفت دل بے رحم کے طرز پر کیوں لے رہے ہیں۔ آنے والا سرکاری خزانے کا ذاتی استعمال کر تا رہا ہے اور حیران کن حد تک یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نئے آنے والے، جانے والوں کی کرپشن کو ہمیشہ چھپاتے رہے ہیں۔ ہمارے عوامی نمائندے بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ حال ہی میں سابقہ صدور اور وزیر اعظم کی مراعات کے حوالے سے قومی پریس میں جو کچھ چھپا ہے وہ ہماری اس تھیوری کو سپورٹ کرتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم صفر ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے روادار بھی نہیں ہیں۔ ذرا قومی میزانیہ اٹھا کر دیکھ لیجئے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ پڑھ لیں اکنامک سروے آف پاکستان کا طائرانہ جا ئزہ لیں تو قومی اقتصادی معاملات کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ سوچنے سمجھنے والے ہر اس شخص کے لیے خطر ناک اور پریشان کن ہے جسے اپنے ملک کے حال و مستقبل سے ذرا برابر بھی دلچسپی ہے ہمارے عالمی قرضے پچھلے چار سالوں کے دوران دوگنے ہو گئے ہیں یعنی ہم نے جتنے قرضے 55 سالوں میں حاصل کئے تھے اتنے ہی گزرے چار سالوں میں مزید حاصل کئے ہیں۔ ہماری قومی پیداوار کا ساٹھ فیصد تک ان قر ضوں پر سود کی ادائیگی میں اٹھ جاتا ہے طے شدہ اصل زر کی سالانہ قسط کی ادائیگی کے لیے ہمیں انہی قرض خواہوں سے مزید قرضہ لینا پڑرہا ہے۔ سرمایہ کاری مکمل طور پر رک گئی ہے ہمارے اپنے سرمایہ دار اپنا کاروبار یہاں سے سمیٹ کر دبئی، آسٹریلیا اور سنگا پور جارہے ہیں دو سوبڑے سرمایہ کاروں نے ملائیشیا کے بزنس پاسپورٹ حاصل کر لئے ہیں سٹاک مارکیٹ کے پچاس سے زائد ممبران آسڑیلیا، کینیڈا اور برطانیہ کی شہریت حاصل کر چکے ہیں یہ سب کچھ سرمائے کے فرار کا باعث بنا ہے رہی سہی کسر لوڈ شیڈنگ اور انرجی بحران نے نکال دی ہے سمال انڈسٹریز جو ہماری قومی صنعتی دنیا کے لیے ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتی ہے مکمل طور پر بد حالی کاشکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں کود کر ہم نے اپنے معاملات کو اور بھی گھمبیر بنا لیا ہے دوسری طرف ہماری قومی سیاست شدید طوفانوں میں گھری ہوئی ہے مفادات اور کرپشن کو قومی مفاہمت کے پردے میں چھپا کر جمہوریت کے نام پر سیا سی جماعتیں مل جل کر لوٹ مار کر رہی ہیں ملک بے روزگاری، بد امنی اور بے یقینی کے سمند ر میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے سرمایہ تو ایک عرصے سے یہاں سے نکلتا جا رہا ہے اب تو ذہین اور کارآمد افراد بھی یہاں سے نکلتے جا رہے ہیں ڈاکٹر انجیئرز تو کیا عام لیول کے ہنر مند اور کاریگر بھی اس ملک کو ایسے چھو ڑرہے ہیں جےسے ڈوبتے ہوئے جہاز کو مسافر چھوڑتے ہیں کسی کو اس ملک کے حال یا مستقبل سے غرض نہیں ہے سب نفسا نفسی کا شکار ہیں دولت اور اختیارات کے حصول کی ایک اندھی دوڑ جاری ہے قومی وسائل کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے عوامی نمائیندے جنہیں اس ملک کے عوام نے اپنے مسائل کے حل اور وسائل کے اجتماعی استعمال کو یقینی بنانے کے لیے منتخب کیا ہے وہ بھی اپنے مفادات کو یقینی نبانے میں مصروف ہیں اس میں کیا ہوگا؟اس بارے میں زیادہ سوچ و بچار کے بغیر ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے لمحہ فکریہ ہے کہ مقروض قوم کے سابقہ حکمرانوں نے جس طرح ملک و قوم کی دولت لوٹی اس کی تفصیلات گاہے بگاہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بیرون ملک سے قرض لے کر اسے وطن عزیز کی ترقی واستحکام کی بجائے اپنے ذاتی اکاﺅنٹ میں جمع کرنے والے عہدوں سے اتر کر بھی مراعات اور دیگر سہولیات سے فیضیاب ہورہے ہےں خاص طورپر وہ آمر جو منتخب حکومتوں کو ختم کرکے بر سر اقتدار آئے اور اقتدار سے باہر ہونے بلکہ ملک سے باہر جانے کے باوجود بھی مراعات کے حق دار ٹھہرے اور تو اور 45دن کے لیے اقتدار اعلی کے مزے اڑانے والے بھی قوم کے پیسوں پر اب بھی سہولتیں اور فوائد اٹھائیں یہ کہاں کا انصاف ہے جبکہ پروےز مشرف جےسے آ مر جو تقرےبا نو سال وطن عزےز کے سےاہ و سفےد کے مالک رہے اور اب بےرون ملک رہ کر عےش کر رہے ہےں اسی طرح سزا ےافتہ وزےر اعظم گیلانی کا معا ملہ بھی خصوصی اہمےت کا حامل ہے سربراہ مملکت ےا وزےر اعظم کوبلا شبہ سبکدوش ہونے پر آئےن کے تحت کئی مراعات حاصل ہےں لےکن کےا مراعات اےک اےسے وزےر ےا صدر کے لئے بھی ےکساں طور پر قابل عمل ہےں جو ملک کی اعلے تر ےن عدالت مےں تو ہےن کا مرتکب پا ئے جانے کے بعد سزا ےافتہ ہو چکا ہو ضرورت اس امر کی ہے کہ چیف جسٹس خود اس بات کا ازخود نوٹس لیں اور ایسے فیصلے کریں جن سے پاکستانی عوام کو احساس ہو کہ ان کے پیسوں سے وطن عزیز کے استحکام او ر آئےن کی بالا دستی کے لئے کام ہو رہے ہیں۔
مال مفت دل بے رحم
Sep 24, 2012