جب 1971ءمیں بنگلہ دیش کو پاکستان نے تسلیم کیا تو اسکے باوجود انہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ اسی طرح سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا تو سعودی عرب نے پاکستان کو بری، بحری اور فضائی تربیت کا کام سونپ دیا۔1973ءمیں سیلاب اور 1975ءمیں سوات زلزلہ میں سعودی عرب کا تعاون مثالی رہا۔ کشمیر میں زلزلہ سے تباہی اور گزشتہ سال سیلاب سے تباہی پر بھی سعودی عرب نے جو تعاون کیا، اس کا یہ احسان پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ سعودی سفیر جناب محمد بن ابراہیم الغدیر نے جس طرح سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر جیسے کام کیا ،وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہم ان خدمات پر اپنے برادر ملک اور محافظ اسلام خادم الحرمین الشریفین اور ارکان حکومت کے شکرگزار ہیں۔
سعودی حکمرانوں کے اخلاص کے بدولت ملک میں قانون الٰہی کی عمل دار یاور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اسکے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات، جدید علوم و فنون کی خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کئے ہیں۔حجاج و زائرین کرام کی سہولت اور پرسکون ماحول میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کےلئے جو انتظامات کئے، وہ زبان زد خاص و عام ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم شاہ عبدالعزیز کا بنیادی فلسفہ اسلام کی خدمت اور حرمین شریفین کی دیکھ بھال تھا۔ ایک اندازے کے مطابق خادم حرمین شریفین کے دور حکومت میں مکمل ہونےوالا حرم شریف کا توسیعی منصوبہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ تھا، جس کے مکمل ہونے پر حرم شریف میں ڈیڑھ ملین سے زائد نمازیوں کی گنجائش پیدا ہوگی جبکہ حرم نبویﷺ شریف میں ایک ملین نمازیوں کی گنجائش موجود ہے اور یہ بھی ایک ریکارڈ تعداد ہے۔
خادم حرمین نے برسراقتدار آتے ہی اپنے بزرگوں کی روایات سب سے پہلے مکہ اور مدینہ کا دورہ کرکے حرمین شریفین کی مزید توسیع اور جاری منصوبوں کو فوری مکمل کرنے اور کروڑوں ریال کے فنڈز کا اعلان کیا اور یہ عہد کیا کہ مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز کے تمام تعمیراتی منصوبے نہ صرف مکمل کئے جائینگے بلکہ زیرغور دیگر منصوبوں کی تعمیر جلد شروع کی جائےگی۔ اسلامی تعلیمات کے احیاءاور قرآن مجید کے ابدی پیغام کو عام کرنے کےلئے خادم حرمین شریفین نے شاہ فہد کمپلیکس مدینہ منورہ میں ایک بڑا اشاعتی ادارہ قائم کر رکھا ہے، جس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 17 سالوں میں اب تک 114 ملین قرآن مجید کے نسخے شائع کرکے دنیا بھر میں مفت تقسیم کرچکا ہے۔ اسکے علاوہ قرآن کریم کے تراجم آڈیو، ویڈیو کی شکل میں قرآن کریم و سیرت النبیﷺ کی لاکھوں کتب چھپوائی گئی ہیں اور دنیا کی تمام قابل ذکر زبانوں میں جن کی تعداد 30 سے زیادہ ہے، قرآن مجید کے تراجم کر دیئے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ مرحوم شاہ فہد کا سب سے بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں ترقی و خوشحالی کے علاوہ سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ مسلمانوںکے مفادات کو مقدم جانا اور انہیں اپنے اہداف میں شامل رکھا جو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ مالی امداد کی شکل میں فراہم کررہے ہیں، وہ مسلمان افغانستان میں ہوں، فلسطین میں ہوں، بوسنیا میں یا دنیا کے کسی بھی گوشے میں۔ اسی طرح خدمت خلق کے لئے بھی آل سعود نے نیم سرکاری و غیرسرکاری تنظیم قائم کی جن میں رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی بین الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے جو اپنے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن الترکی کی باہمت اور پرجوش قیادت میں مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنے، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے، اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنے اور گمراہ کن عقائد و نظریات کی نفی کرنے اور جدید فقہی مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے اور قرآن کے اعجازات جدید سائنسی انکشافات کے تناظر میں اجاگر کرنے کیلئے بڑا فعال کردار ادا کررہی ہے۔آل سعود نے ہمیشہ اپنی وجاہت علم و اسلام دوستی اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عملدرآمد، ملک میں قرآن و سنت اور ایک مستحکم اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔ سعود بن محمد سے لے کر شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی، اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے کا احترام، مال و جان کا تحفظ و آبرو، امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ہم سعودی عرب کے81ویں یوم الوطنی کے پرسعادت موقع پر ان کی قیادت کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب کو اندرونی و بیرونی دشمنوں کی دست بُرد سے محفوظ رکھے اور اسے اسی طرح عالم اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!