بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب نے محکمہ توانائی قائم کیا جس نے سولر،تھرمل، ہائیڈل اور کوئلہ سے تین ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تیار کئے تھے۔ انرجی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مختلف پاور پراجیکٹس کےلئے نو ارب کے فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تاہم پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے فنڈز کے اجرا کے لئے پی ڈی ڈبلیو پی کی منظوری لاذمی قرار دیتے ہوئے فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح مالی سال دو ہزار گیارہ، بارہ کے دوران کسی بھی منصوبے کیلئے فنڈز جاری نہیں کئے گئے۔ محکمہ توانائی نے صوبائی دفاتر میں سولر انرجی کی فراہمی سمیت تین منصوبوں کیلئے چھیالیس ملین روپے کے فنڈز جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا لیکن ان پراجیکٹس کیلئے بھی فنڈز جاری نہیں کئے گئے۔ انرجی بورڈ کی طرف سے بنائے گئے منصوبوں میں کوئلے سے نو سو میگاواٹ، پانی سے دو سو میگاواٹ اور مکس جنریشن سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جانا تھا۔ ان پاور پراجیکٹس میں بائیو گیس اور بائیو ماس سے دو سو میگاواٹ اور سولر سے پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے علاوہ تونسہ کے مقام پر ایک سو بیس میگاواٹ کا پن بجلی گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے، جبکہ نہروں پر دو سو پچیس میگاواٹ کے چھتیس پن بجلی گھروں کی تعمیر بھی ان منصوبوں کا حصہ ہے۔