حکومتی حلقوں خصوصاً ارباب تعلیم یہ تازہ خبر الارمنگ نیوز ہے بلکہ وارننگ ہے جس کے مطابق حال ہی میں گرفتار بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی سنگین نوعیت کی وارداتوں میں ملوث گرفتار 25 ملزمان پوسٹ گریجوایٹ ہیں جن میں مکینیکل انجینئرز اور بی ایس سی کمپیوٹر سائنسرز بھی شامل ہیں یہ تمام ملزمان امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں بھوک، بیروزگاری وغیرہ ان کا مسئلہ نہیں۔
ان کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ دینی اداروں سے فارغ التحصیل کالعدم تنظیموں سے وابستہ ہیں جو اپنی تنظیموں کی فنڈ ریزنگ کیلئے وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ خبر نہ صرف ہر دردمند پاکستانی خصوصاً اہل دانش کو دعوتِ فکر دے رہی ہے کہ ہمارا شُتر بے مہار مادر پدر آزاد نظام تعلیم ہمیں اور کہاں تک لے جائے گا اور کب تعلیم تعلیم کی مالا جپنے والے صاحبان اقتدار و اختیار کو تعلیم کے تربیتی پہلوئوں کی اہمیت کا احساس و ادراک ہو گا۔
دراصل ہمیں (مسلمانوں) کو پاکستان بننے سے بھی پہلے سے یعنی جنگِ آزادی کے بعد سے ایجوکیشن وار کا سامنا ہے یہ جنگ تعلیم کے ہتھیاروں سے لڑی جا رہی ہے جس میں میڈیا سے لیکر دینی و دنیوی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شرح خواندگی کے ساتھ ساتھ شرح جرائم میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی غماض ہے …؎
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خود کو ۔۔۔ ہو جائے جو ملائم تو جدھر چاہئے ادھر موڑ
زیرک سامراجی قوتیں جسموں کی قید کی بجائے دل و دماغ اور روحوں کو مقید کرنے کا جال تعلیم کو بنا کر ہمیں شکار کر رہی ہیں۔ ہم اپنی عام زندگی میں اپنی مشینری وغیرہ اسی کمپنی کے ایکسپرٹ مکینک کی ورکشاپس پر لے جاتے ہیں انہی کے مشہروں کو اہمیت دیتے ہیں، ہمارا اعتماد کمپنی کے ڈیلر انجینئر مکینک پر زیادہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اپنے اپنے معاشروں کے ایکسپرٹس دانشور ماہرین تعلیم بھی مختص ہیں۔ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کیلئے اسلامی دانشوروں، ماہرین تعلیم ہی بہتر رائے اور نظام دے سکتے ہیں، مثلاً ہم نے اپنے اسلامی دانشور مولانا جلال الدین رومیؒ کے حصول تعلیم کیلئے وضع کردہ مقصد تعلیم سے انحراف کیا اور سزا پائی ۔
آج ہمارا مقصدِ تعلیم نوکری، بزنس یا صرف دنیاوی ترقی ہی نہیں رہ گیا؟ اور پھر یہ علم بقول رومیؒ ہمیں سانپ بن کر نہیں ڈس رہا؟
مغربی افکار و نظریات کا چربہ یہ نظام تعلیم ہمیں مایوسیوں میں دھکیل رہا ہے۔ نظریاتی احساس کمتری کا شکار بنا کر ہماری قومی و ملی اقدار کو نگل رہا ہے لہٰذا ہمیں اپنے علم و دانش کے بہترین ماخذ قرآن و سُنت کی روشنی میں اپنے اسلاف قومی دانشوروں کی مدد سے اپنے نظام تعلیم، نصاف تعلیم کو ارفع اعلیٰ پاکیزہ نظریات سے مزین کر کے بامقصد اور اپنی معاشرتی، قومی علمی اقدار اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی بازپُرس اور کامیاب ادارہ بنانے کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں کی سرپرستی اور محاسبہ خصوصاً خالصتاً کاروباری سوچ کے حامل نام نہاد شہرت اور کمپنی کی مشہوری کیلئے بوٹی مافیا، رٹا اور دوسرے اوچھے حربے اختیار کرنے والے تعلیمی اداروں پر کڑی نظر رکھنی ہو گئی اس کیلئے باشعور والدین اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں آنا ہو گا۔
ہم ایک زندہ و پائندہ قوم بننے سے قاصر رہیں گے کیونکہ آج کے فرعون کو کالج کی سوجھ گئی ہے شاید اس نے اکبر مرحوم کا یہ شعر پڑھ لیا ہے … ؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا ۔۔۔ افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی