کراچی میں سالہا سال سے بدامنی اپنی انتہا پر رہی۔ اب حالات رفتہ رفتہ بہتر ہو رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پُر زور اصرار اور بھرپور مطالبے پر فوج اپریشن کرتی تو اب تک حالات پر گرفت مزید مضبوط ہوچکی ہوتی۔ فوج کو بلانے کا آپشن شاید اس لئے بروئے کار نہیں لایا گیا کہ فوج پہلے ہی ملک کے اندر دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں الجھی ہوئی ہے اوپر سے لائن آف کنٹرول بھی گرم ہے۔ جہاں تک کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بھارت کیلئے دل میں نرم گوشے بلکہ محبت کے یکطرفہ بے پایاں جذبات کے اظہار کے باوجود L O C کے آر پار آمدورفت اور تجارت مکمل طور پر رکی ہوئی ہے۔ بھارت میں اگلے سال اپریل مئی میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ بھارتی سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی جیت کیلئے پاکستان دشمنی کو ہوا دے کر ہندو ووٹر کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 2008ء کے الیکشن سے چند ماہ قبل بھی پاکستان کیخلاف انتہائی نفرت پیدا کی گئی۔ اُن دنوں ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا گیا تو اب 6اگست کو لائن آف کنٹرول کے پانچ میل اندر5 بھارتی فوجیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ انکی لاشیں سنبھالنے سے قبل اس کارروائی کا الزام پاک فوج پر لگا کر بھارتی سیاسی و عسکری قیادت کی زبانیں پاکستان کیخلاف زہر اگلنے لگیں۔ جوں جوںانتخابات نزدیک آئینگے بھارت کے شدت پسندانہ رویوں میں اضافہ ہوتا جائیگا۔اس دوران جذباتی بھارتی فوجی قیادت کوئی مہم جوئی بھی کر سکتی ہے کیونکہ اس کو سیاسی قیادت نے پاکستان کے خلاف کچھ بھی اورکسی بھی وقت کرنے کی کھلی چھٹی دیدی ہے۔ اسکے ساتھ ہی بھارتی آرمی چیف بکرم سنگھ نے پاکستان کو اشتعال انگیز دھمکیاں بھی دی ہیں۔ ان حالات میں پاک فوج ملک کے اندر اپنی سرگرمیوں کو مزید پھیلانا نہیں چاہتی۔ شاید اسی لئے کراچی میں فوجی اپریشن کے آپشن پر غور نہیں کیا گیا۔سیاسی قیادت نے اسکے بجائے ایک مکمل اتفاق رائے سے ٹارگٹڈ اپریشن کا فیصلہ کیا جس پر عمل جاری ہے۔گو کہ اس میں کوئی معرکہ آراء کامیابی تو نہیں ملی البتہ توقعات سے بڑھ کر اپریشن کامیاب جارہا ہے۔ دہشت گردوں کی اکثر یت کراچی سے راہِ فرار اختیار کرچکی ہے۔ کوئی دہشت گرد لاہور سے پکڑا جارہا ہے کوئی اسلام آباد سے اور کوئی مری سے۔ یہ اپریشن میں نرمی یا اس کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن حکومتی وِل اسی طرح برقرار رہی تو نہ صرف دہشت گرد کراچی واپس نہیں آسکیں گے بلکہ عروس البلاد کے اندر موجود جرائم پیشہ عناصر بھی ایک ایک کرکے کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے۔ کراچی میں لاقانونیت، دہشت گردی، بدامنی اور بھتہ خوری جیسے امراض پر قابو پانا کیسے ممکن ہوتا جب وہاں حکمرانی کرنے والی پارٹیاں خود ایسی خرافات کی پشت پناہی کرتی تھیں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں انکے لوگ بیٹھے تھے۔ رینجرز کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اختیارات پولیس کے حوالے کردئیے جائیں اور اس ادارے سے سیاست کا عنصر نکال دیاجائے تو وہ بھی حالات پر کافی حد تک قابو پاسکتی ہے۔اختیارات نہ ہوں تو غنڈے فوج کی بھی وردیاں پھاڑ دیں۔ کراچی میں اپریشن کا فائدہ تبھی ہے کہ دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اگر ماضی کی طرح اپریشن ادھورا رہا تو ماضی ہی کی طرح کے نتائج سامنے آئیں گے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ92ء میں اپریشن کرنیوالوں کو چُن چُن کر قتل کردیا گیا۔ لگتا ہے حکومت کو ادھورا اپریشن چھوڑنے کے نتائج کا ادراک ہے۔ دہشت گردی کا مکمل سدباب کرنے کیلئے وفاقی کابینہ نے کراچی میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ٹارگٹ کلرز، بھتہ مافیا اور اغواء برائے تاوان کے ملزموں کو وارننگ کے بعد گولی مارنے کا اختیار شامل ہے۔کراچی کی رونقیں روشنیاں لوٹانے کیلئے اسکے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا۔ جس شہر میں 33 ہزار تربیت یافتہ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہوں، وہاں قیام امن کیلئے خصوصی قوانین بنانا اور فورسز کو اختیارات دینا ہی حل رہ جاتا ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے ملائشیا طرز کے اپریشن پر زور دیا ہے کراچی کے مسئلے کا حل ملائشیا طرز کے اپریشن اور اُسی طرز کی فورس کی تشکیل سے ہی ممکن ہے۔ ملائشیا میں پاکستان جیسے بدترین حالات کبھی نہیں رہے۔ ملائشین حکومت نے لاقانونیت کے خطرے کو بھانپ کر فوری طور پر اقدامات کر لئے تھے اس لئے وہ کسی بھی قسم کی بد امنی ، دہشتگردی اور تخریب کاری سے محفوظ رہا۔ انسداد دہشت گردی کیلئے ملائشیا میں ’’ملائشین سپیشل آپریشنز فورسز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ملائشین سپیشل آپریشنز فورس کے ذمے جو کام سونپے گئے ہیں ان میں ملکی سلامتی کا دفاع اور خصوصی طور پر دہشت گردی سے نمٹنا ہے۔ اس سے قبل دنیا نے دیکھا کہ نیو یارک بھی غیر محفوظ شہر بن کر رہ گیا تھا۔ نوے کی دہائی میں نیویارک شہر کے بعض علاقے نوگو علاقے سمجھے جاتے تھے- ٹائمز اسکوائر طوائفوں، جوئے اور دیگر جرائم کا گڑھ بن گیا تھا اور خاندان کے ساتھ گھومنے پھرنے کی جگہ نہیں رہا تھا-
نیویارک شہر کے میئر کے طور پر روڈی جولیانی کے دور (2001 ئ– 1994ئ) میں نیویارک شہر سے جرائم کا خاتمہ ہوگیا- جولیانی بھی روایتی میئر ثابت ہوتا تو نیویارک بھی کراچی کی تصویر پیش کر رہا ہوتا۔ کراچی کی سیاسی پارٹیاں اپنے جنگجوئوں کے ذریعے کراچی کو فتح کرنے کی کوشش میں تھکی نہیں ہیں۔ اب چونکہ وہاں ٹی ٹی پی نے بھی سینگ جما لئے ہیں اور ان کا مقابلہ کراچی میں پاور کے حصول کیلئے لڑنے والوں کے بس کی بات نہیںاس لئے وہ کراچی میں ہر قیمت پر امن کی خواہش کا اظہار کر رہی ہیں۔ وجہ جو بھی ہو تمام سیاسی قیادت کراچی میں بدامنی کے خلاف متحد ہے۔ مرکزی حکومت نے رینجرز کو اس کی مرضی کے مطابق اختیارات بھی دے دئیے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی کراچی میں امن کے قیام کیلئے احکامات اور ہدایات دے رہی ہے۔ اب قوم کو بھی کراچی میں قیام امن کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت کا ساتھ دینا چاہیئے اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو خدا نخواستہ کراچی بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔
اب جبکہ کراچی میں امن بحال ہوتا نظر آ رہا ہے اور اس پر تمام پارٹیاں اور عوام مطمئن ہیں تو فاٹا اور خیبر پی میں دہشتگردوں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ چند روز قبل جنرل ثناء اللہ کو ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیا تو گزشتہ روز پشاور دھماکے میں دہشتگردوں نے 80افراد کو مار ڈالا گیا اور ڈیڑھ سو زخمی ہوئے۔ اس حملے میں گو چرچ کو نشانہ بنایا گیا اور مرنے والے زیادہ تر کرسچیئن ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ پاکستانی ہیں ۔ یہ اندرونی سازش ہے یا بیرونی،کراچی کی طرز پر یہاں بھی اپریشن کی ضرورت ہے۔ اس دھماکے کے ذمہ داروں کو کرش کیا جائے نہ کہ ان کو احترام دے کر مذاکرات کئے جائیں۔
کراچی امن کوششوں سے پشاور گرجا دھماکوں تک
Sep 24, 2013