اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقع پر نواز، من موہن سنگھ ملاقات ہو سکتی ہے دو جمہوری مملکتوں کے منتخب وزرائے اعظم کی ممکنہ ملاقات بڑے تنازعات اور لائن آف کنٹرول پر فوجی جھڑپوں کے تناظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستانی قومی مفادات کے تحفظ کیلئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ ’’دوستی، دوستی‘‘ کے کھیل میں بھارت سے اپنے ملک کے تحفظ، سلامتی، اقتصادی استحکام، زرعی ترقی، امن و امان، کراچی، بلوچستان میں ’’را‘‘ کی مداخلت، اسلحہ، ایجنٹوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں، دریائوں کا پانی روکنے، موڑنے کے بھارتی ڈیموں کی تعمیر، افغانستان کے اندر قائم ’’را‘‘ کے آپریشنل و منصوبہ بندی ’’دفاتر‘‘ و قونصل خانے سے پاکستان میں ’’دراندازی‘‘ فتنہ سازی، گروپوں، نسلوں، علاقہ، زبانوں کی بنیاد پر تفرقہ پروری کے وسیع منصوبوں جیسے سنگین مسائل پر ڈاکٹر من موہن سنگھ کو دوٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں یا نہیں؟بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، بھارتی وزارتِ خارجہ اور بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے گذشتہ تین ماہ میں عملی طور پر ’’بغل میں چھُری اور مُنہ پہ رام رام‘‘ کے کئی نادر ’’نمونے‘‘ (ایل او سی گولہ باری) دنیا کو واضح طور پر دکھائے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ تو اپنے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ اور وزیر دفاع انتھونی کی ’’لمبی زبانوں‘‘ کو لگام دینے میں مکمل ناکام رہے جو پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے، سبق سکھانے، 71ء کی جنگ کی شکست کو دُہرانے اور اپنی مرضی کا مناسب جواب دینے کی دھمکیاں دیتے رہے جبکہ بھارتی قیادتوں کو بخوبی معلوم ہے کہ پاکستانی ایٹمی میزائل 6 تا 20 منٹ میں بھارت کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں‘ البتہ یہ بات واضح ہوئی کہ بھارت سرکار مذاکرات و تنازعات کے حل کے ساتھ ساتھ فوجی ایکشن سے اپنی کھلی منافقت کا اظہار کرتی ہے۔ ساری دنیا میں بھارت کے مذاکرات سے ’’فرار‘‘ اور پیشگی شرائط عائد کرنے پر ہنسی اڑائی جا رہی ہے! ’’دوعملی‘‘ اور ’’دو مُنہ‘‘ بھارت سرکار کے ہیں۔ پاکستانی آرمی چیف جنرل کیانی نے بارڈر پر جھڑپوں کے دوران کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان بھارت یا بھارتی افواج کے خلاف نہیں دیا البتہ وہ یہ واضح کرتے رہے کہ دشمن کے حملوں کا جواب مُنہ توڑ ملے گا۔ بھارتی فوجی قیادت کی طرح منتخب وزیراعظم اور خارجہ اتھارٹی کے ہوتے ہوئے جنرل بکرم سنگھ کی طرح سیاسی بیانات نہیں دئیے۔ کیا بھارتی وزیراعظم اپنے آرمی چیف کو مستقبل میں سفارتی و خارجہ معاملات میں بے جا دخل اندازی سے منع کرتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن میاں محمد نوازشریف کو ایسا کرنے کا مطالبہ من موہن سنگھ سے ضرور کرنا چاہئے ورنہ لائن آف کنٹرول اور پاک بھارت ’’گرم ماحول‘‘ دونوں نارمل حالات کی جانب نہیں جا سکتے!
میاں محمد نوازشریف کو چاہئے کہ وہ نازک سلامتی کے مسائل پر بھی بھارتی ہم منصب سے مختصر لیکن دوٹوک بات کریں اور پاکستان میں دہشت گرد گروپوں، ایجنٹوں کی بلوچستان، کراچی، دیگر شہروں میں سرپرستی، تربیت، اسلحہ، منصوبہ بندی کے ’’را‘‘ کے تباہی کے منصوبوں پر احتجاج کریں اور واضح بتا دیں کہ ’’را‘‘ کو لگام ڈالے بغیر بھارت سرکار پاکستان سے دوستی، تجارت، افغانستان و وسطی ایشیائی ممالک تک کے کھربوں روپے کے ’’روٹ‘‘ کو ’’بھول‘‘ جائے! اِس ’’روٹ‘‘ پر پاک بھارت معاہدوں کو قومی اسمبلی و سینٹ سے ’’روکا‘‘ بھی جا سکتا ہے! ’’را‘‘ کے افغانی دفاتر سے ’’مداخلت‘‘ پر بھی زوردار احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ پاکستان اور بھارت کو دو برابر کی ایٹمی طاقتوں کے تناظر میں برابری کی سطح پر آنا ہو گا۔ پاکستان بھارتی بالادستی ’’مر‘‘ کر بھی قبول نہیں کریگا یہ بھی پاکستانی وزیراعظم کو بتا دینا چاہئے۔
دونوں وزرائے اعظم اگر کمپوزٹ ڈائیلاگ بحال کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں اور ورکنگ گروپ، سیکرٹری، وزیر خارجہ کی میٹنگوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو بھارت کو ’’فضول شرائط‘‘ عائد نہیں کرنی چاہئے جو بھارتی خلوص کو ہی ’’ننگا‘‘ کر دیں۔ بھارت اگر سنجیدہ و بامعنی مذاکرات نہیں چاہتا تو پاکستانی قوم بھی بھارت سے ’’پیار کی پینگیں‘‘ بڑھانے کو تیار نہیں۔ مذاکرات اگر خودی، خودمختاری، برابری، کشمیر (مقبوضہ) اور پانی کے تنازعات کے حل کیلئے ہونے ہیں تو اگلے تین ماہ میں ٹائم فریم کے اندر ہونے چاہئیں۔ پاکستانی وزیراعظم کو بہرحال دیرینہ قومی مفادات کے حل کیلئے بھارتی وزیراعظم کو ٹھوس مطالبات دے دینے چاہئیں جب تک مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور کشمیری قیادتوں کی آزادی کی تحریک کے تناظر میں حل نہیں کیا جاتا بھارت سے دوستی و تجارت اپنی شہہ رگ پر ’’چھُری‘‘ رکھوانے کے مترادف ہے۔ اگلے دس برس میں ہمارے جہلم، چناب، سندھ دریائوں پر بھارتی ’’کنٹرول‘‘ ہو گا جو ہماری زرعی و اقتصادی موت ہو گا اِس لئے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ، حل طلب مسئلہ تسلیم کرانا میاں محمد نوازشریف پر فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ’’دوستی بس‘‘ مذاکرات میں بھارتی وزیراعظم واجپائی سے ’’کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرتے ہیں‘‘ کا دھوکہ دہی پر مبنی بیان لینے میں کامیابی کو ’’عظیم کامیابی‘‘ سمجھنے کا دھوکہ میاں نوازشریف کھا لیں اور صرف ایک گھنٹے بعد جالندھر، امرتسر یا دہلی میں واجپائی جہاز سے اتر کر بیان دے ڈالیں کہ میری مراد تو پاکستانی کشمیر سے تھی!! 1999ء کی بھارتی منافقت میاں محمد نوازشریف کو ہر دم تازہ رکھنی چاہئے کہ کسی نئے ’’چکمے‘‘ میں نہ پھنسیں! واجپائی کے ’’دوستی بس دورے‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے، تلخ حقائق بھی مدنظر رہنے چاہئیں۔ بھارت ایک دشمن اور سازشی ’’ہمسایہ‘‘ ہے! اور اس کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں! ذرا محتاط، وزیراعظم صاحب!
نوازشریف، من موہن ممکنہ ملاقات اور قومی مفادات
Sep 24, 2013