انگریزوں سے آزادی کی تحریک اپنے پورے زور پہ تھی ہندوستان کی چاروں بڑی مذہبی قوتیں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سبھی اس بات پر متفق تھے کہ غلامی سے نجات پانے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی لیکن اس وقت کی مسلم قیادت نے اس بات کا ادراک کر لیا کہ ہم انگریز سے آزادی تو حاصل کر لیں گے لیکن اکثریتی ہندو سے آزادی پانا بہت مشکل ہوگا اس لیے دو قومی نظریہ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں نے الگ مملکت کا مطالبہ کر دیا۔ اس مطالبے کو ہندوستان بھر کے مسلمانوں سے پذیرائی ملی اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے مختلف مواقع پر سکھوں کی لیڈرشپ سے برملا کہا چونکہ مغربی پنجاب جہاں پہ سکھوں کے مقدس مقامات ہیں اور وہ بڑی تعداد میں بھی موجود ہیں اور پاکستان کے حصے میں آنیوالے پنجاب میں انکی زبان، کلچر، رسم و رواج، ذات برادری اور روایات ملتی ہیں اس لیے بہتر ہوگا کہ سکھ مسلمانوں سے الحاق کا اعلان کر دیں مگر قائداعظم کی اس دوراندیشی کو اس وقت کے سکھ سیاسی لیڈر تارا سنگھ نہ سمجھ سکے اور ہندوئوں کے دام میں آ گئے اور ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا جبکہ 1936ء کے الیکشن نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت ناصرف قیام پاکستان کی مخالف ہے بلکہ کانگریس کی اگلی صفوں میں بیٹھے ہیں۔ اس موقع پر برصغیر کی چوتھی سٹیک ہولڈر مذہبی اقلیت عیسائیوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا نہ صرف باقاعدہ اعلان کر دیا بلکہ تحریک پاکستان میں لاتعداد قربانیاں دیں اور بھرپور حصہ لیا۔ یہی وجہ تھی 1936ء کے الیکشن کے نتائج اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ علاقے جہاں عیسائیوں کی کثیر تعداد آباد تھی وہان پر مسلم لیگ نے تاریخی کامیابیاں حاصل کیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں متعدد مواقع پر یہ فرمایا کہ مذہبی اقلیتوں کو پاکستان میں مکمل آزاد ہو گی کہ وہ اپنے اپنے مذاہب پر رہتے ہوئے اپنے عقائد کے مطابق بحیثیت پاکستانی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں سکیں گے۔
حتیٰ کہ قومی پرچم کو ڈیزائن کرتے وقت بھی خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کا تشخص دب نہ جائے۔ یہی وجہ تھی کہ سبز کے ساتھ سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں ہندو مسلمان اور عیسائی ایک قوم کی طرح ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے کہ 1977ء میں ضیاء الحق کے مارشل لاء نے ملکی سمت کو ڈی ٹریک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی سیاسی سمت تو قیامِ پاکستان سے ہی سنبھل نہ پائی تھی کہ اس دوران آمر نے ملکی اساس کو کمزور اور ناتواں بنانے کیلئے ذات برادریوں کی تفریق سمیت مذہبی منافرت پھیلانے کا گھنائونا عمل شروع کر دیا اور اقلیتیں جنہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا ان کو اب یہ احساس ہونے لگا کہ کہیں انکے آبائواجداد نے فیصلہ کرتے وقت غلطی تو نہیں کی تھی؟ ضیاء الحق کے دور میں متعدد قوانین مذہبی اقلیتوں کو یکسر نظرانداز کرکے بنائے گئے۔ گذشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل نے توہین رسالتؐ کے قانون میں ترامیم کے لیے کچھ نئی سفارشات پیش کی تھیں۔ دراصل وجہ ان ترامیم کی یہ بنی تھی کہ 295سی کے قانون کا بے دریغ اور ناجائز استعمال بھی کیا گیا جس پر کہ مذہبی اقلیتوں کے اپنے اپنے تحفظات ہیں لیکن پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی نے شتر بے مہار ہماری اساسی اور نظریاتی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ایک عام فہم پاکستانی بھی اس بات پر پریشان ہے کہ ہمارے مذہبی اقلیتی بھائی جو صدیوں سے ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں یکدم انہیں اس دھرتی سے مٹا دینے کا عمل غیر اسلامی اور غیر انسانی ہے۔ اس بات کی اجازت ہمیں نہ تو ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ نے دی ہے او رنہ ہمارے بانیٔ پاکستان قائداعظم نے سوچا تھا۔ اوورسیز میں بسنے والے تقریباً 2کروڑ پاکستانی جن کی ایک بڑی تعداد امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں آباد ہے اور ان میں سے 90فیصد کے پاس دوہری شہریت بھی نہیں مگر اسکے باوجود بھی انہیں انکے متعلقہ ملک میں جہاں نہ صرف کلچر زبان اور مذہب مختلف ہے وہاں پاکستانیوں کو اور مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے مساویانہ حقوق میسر ہیں۔
سوئٹزرلینڈ میں میرے پاس ایک دفعہ سابق وفاقی وزراء مخدوم شہاب الدین اور فاروق ایچ نائیک ،شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے کیسز کے سلسلے میں تشریف لائے۔ میں انہیں ایک تاریخی چرچ دکھانے لے گیا۔ میرے مہمان چرچ کے اندر یہ دیکھ کر حیران ہو گئے وہاں پہ ایک چھوتا سا بورڈ جس پر یہ تحریر تھا کہ مسلمان وزیٹر اگر چاہیں تو یہاں پر اپنی نماز ادا کر سکتے ہیں اور نیچے ایک اسلامی مصلہ بچھا تھا مگر آج پاکستان میں کسی غیرملکی کی نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے زبان بولنے والے ایک جیسا کلچر رکھنے والے اسی وطن کیلئے جان دینے والوں کی عبادت گاہوں اور بستیوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ایک وقت تھ اکہ ہم بڑے فخر سے غیرملکی دوستوں اور مختلف وفود کو یہ بتایا کرتے تھے کہ بھارت کی نسبت پاکستان میں مذہبی آزادی بہت زیادہ ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اسمبلیوں میں بھی پہنچ جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں ایک دفعہ محترمہ بینظیر بھٹو کے اتھ امریکہ کے غیر سرکاری دوسرے پر تھا جہاں پر پاکستانی نژاد امریکن وکٹر گِل اور مانی عالم نے کچھ ارکان کانگرس کے ساتھ ملاقاتیں طے کر رکھی تھیں ۔ وہاں پر محترمہ نے ان کو یہ یقین دلایا تھا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور مساویانہ حقوق دیئے جائینگے۔ دراصل محترمہ کی شہادت سے نہ صرف پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کو دھچکا لگا بلکہ مذہبی رواداری اور اقلیتوں کے حقوق کیلئے صدا بلند کرنے والی آواز بھی خاموش کر دی گئی۔ آج دنیا ایک ’’گلوبل ویلج‘‘ کی سی صورت اختیار کر چکی ہے جہاں پر ہر انسان کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ اب صلیبی جنگوں اور ایوبی جنگوں کا دور نہیں رہا اب ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور احترام کا دور ہے۔ اب مذہب کے نام پر قتل و غارت اور دکان داری چمکانے کی ہمیں عالمی برادری اجازت نہیں دیتی۔ آج آپ اپنے ہی ملک میں رائج قوانین کے نام پر اپنے شہریوں تک کا استحصال نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی پولیس مین امریکہ اور روس دنیا کے نقشے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ پاکستان میں انسانی حقوق اور حقوق نسوں اور مذہبی حقوق کے معاملے میں ہزاروں این جی اووز میدان عمل میں موجود ہیں۔ جن کی 90فیصد تعداد روزی روٹی کمانے اور اپنی دوکان چمکانے کے چکر میں ہیں۔ خاص طور پر لاہور میں یوحناآباد اور بہار کالونی میں ہر گھر میں اوسطاً دو این جی اووز رجسٹر ڈ ہیں۔ جو 295سی کے معاملے پر آپس میں گتھم گتھا ہوتی ہیں۔ آج پاکستان کی مذہبی اقلیتیں ہی نہیں مندر، چرچ اور گردوارے، مساجد دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ پھٹتا ہوا ایک بم اور بندوق سے نکلی ہوئی گولی یہ نہیں دیکھتی کہ اس کا نشانہ، ہندو، مسلم یا عیسائی ہے۔ پچھلے 13سال میں پاکستان میں ایک ہزار سے زیادہ مساجد کو نشانہ بنایاگیا۔ 60ہزار سویلین اور 10ہزار عسکری جوان شہید ہوئے یقینا ان میں ایک خاص تعداد غیر مسلم پاکستانیوں کی بھی ہے۔ آج وقت ہے کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کیخلاف لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ہمیں نظر رکھنی ہو گی کہ دہشت گردوں کی صفوں میں کہیں ہمارا ازلی دشمن بھارت اور اسرائیل تو شامل نہیں؟ جو پاکستان کو عالمی برادری میں ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کے در پہ ہیں۔ پشاور کے چرچ میں جاں بحق ہونیوالے مسیح یا مسلم تو ہوں گے مگر وہ سچے اور محب وطن پاکستانی ضرور تھے۔
سانحہ پشاور۔ ملکی سالمیت پر حملہ
Sep 24, 2013