کراچی (وقائع نگار) سندھ اسمبلی نے پیر کو ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی، جس میں پشاور کوہاٹی گیٹ چرچ پر وحشیانہ خودکش حملے کی سخت مذمت کی گئی اور اس واقعہ کو قومی سانحہ قرار دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے اور انہیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ قرارداد پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر مہیش کمار ملانی ، ایم کیو ایم کے عارف مسیح بھٹی، مسلم لیگ (فنکشنل ) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی، تحریک انصاف کی ڈاکٹر سیما ضیاءنے پیش کی تھی۔ قرارداد پر خطاب کرتے ہوئے متعدد وزراءاور ارکان نے اس رائے کا اظہار کیا کہ سانحہ پشاور کے بعد انتہاپسند گروہوں سے مذاکرات کے فیصلے پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ سینئر صوبائی وزیر تعلیم نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ بھتہ خوروں کو تو گولی مارنے کا حکم دیا جاتا ہے اور جو لوگ ملک کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات سے قبل ہتھیار پھینکنے کی شرط عائد کی جائے، ایسے عناصر سے بات چیت نہ کی جائے جو معصوم لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اس بڑے سانحے پر ابھی تک کسی نے ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا۔ انہوں نے نواز شریف کا نام لئے بغیر کہا کہ کوئی اس موقع پر لندن چلا گیا ہے اور وہاں سے کہہ رہا ہے کہ ہمیں اب مذاکرات میں دقت محسوس ہوگی یہ کیوں نہیں کہتے کہ اب ان لوگوں سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ قائد حزب اختلاف سید فیصل سبزواری نے کہا کہ وہ لوگ ہم پر مسلط ہونا چاہتے ہیں جو اسلام کا تشخص دنیا بھر میں خراب کررہے ہیں۔ ان لوگوں سے مذاکرات کی بات کی جارہی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر رہے تو ہمارے لوگ ان سے محفوظ رہیں گے وہ خام خیالی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے لڑنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے بعد وفاقی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہارالحسن نے کہا کہ کس گروپ کے ساتھ مذاکرات ہونا چاہئے یہ کیسے طے ہوگا۔ وہاں تو کئی گروپ ہیں، ہم تو ضمانت بھی دے سکتے ہیں ان کی طرف سے کون ضامن ہوگا۔ ہمیں اپنے قومی مفاد اور تشخص کو سامنے رکھ کر بات کرنی ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے مہیش ملانی نے کہا کہ یہ غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ کوئی عبادت گاہ اور درسگاہ محفوظ نہیں رہی ہے، ہمیں درست سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر سیما ضیا نے کہا کہ پاک فوج اور مسیحی برادری پر حملہ ایک سازش ہے، جس کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔ کچھ عناصر مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سید سردار شاہ نے کہا کہ کیا ہم مذاکرات کے ذریعے ایک بار پھر ان دہشتگردوں کو جیلوں سے آزاد کرانے کا موقع دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ سکیورٹی فورسز اور عوام پر حملے کرتے رہیں۔ ایسے عناصر کو کچلنا ہوگا۔ اجلاس کے شروع ہوتے ہی سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والوں کے لئے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ دریں اثناءسندھ اسمبلی نے پیر کو ”سندھ نومولود اسکرنینگ بل 2013“ کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی، جو فوری طور پر پورے صوبے میں نافذ العمل ہوگا۔ اس قانون کے تحت تمام نومولود بچوں کی سماعت کی اسکرنینگ ہوگی تاکہ سماعت کی کمی یا بہرے پن کے منفی اثرات کا خاتمہ کیا جاسکے۔ بچوں کے والدین یا قانونی ورثاءاپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر اس اسکرنینگ سے انکار کرسکتے ہیں لیکن انہیں اس کے لیے تحریری حلف نامہ دینا ہوگا۔علاوہ ازیں سندھ میں ڈاکٹروں کے بڑھتے ہوئے اغوا کا معاملہ گزشتہ روز اجلاس کے دوران سندھ اسمبلی میں اٹھایا گیا۔ ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین خان نے ایک تحریک التواءپیش کی، جس میں کہا گیا کہ سندھ میں ڈاکٹروں کے اغواءکی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سندھ حکومت مغوی ڈاکٹروں کی بحفاظت بازیابی کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ وزیرقانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر علی میندھرو اور سنیئر وزیر تعلیم نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ڈاکٹروں کے اغواءکا معاملہ انتہائی تشویش ناک ہے لیکن تحریک التوا کا مسودہ قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔ قائم مقام سپیکر نے تحریک التوا کو خلاف ضابطہ قرار دے دیا۔