انتخابی مقدمات کی ایک ساتھ سماعت کا فیصلہ، دھاندلی کا معاملہ بڑا سوال بن گیا: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے انتخابی عذر داریاں اکٹھے سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ دھاندلی کا معاملہ بہت بڑا سوال بن گیا ہے اب یہ ایک قومی ایشو ہے جس کا احاطہ و فیصلہ صرف ایک پٹیشن پر نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اطہر سعید اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے شکار پور سندھ کے انتخابی حلقہ این اے 202 محمد ابراہیم جتوئی بنام آفتاب شعبان میرانی کیس کی سماعت کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امیدوار تو بہت سے ہوتے ہیں مگر عدالت صرف اس کو سنے گی جس نے الیکشن لڑا ہو باقی کو ایکس پارٹی تصور کیا جائے گا۔ جتوئی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ متعلقہ حلقے میں 21 پولنگ سٹیشنوں پر دو بار پولنگ ہوئی جس میں میرے مؤکل دو سو ووٹ سے ہار گئے جبکہ اس سے پہلے الیکشن میں وہ بارہ سو ووٹ سے کامیاب ہوئے تھے، کیا بغیر ثبوت اور شواہد کے صرف مشینوں کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ووٹ کے فارم پر اگر ووٹر جعلی انگوٹھا لگا کر ووٹ بنا لے تو اس کی تصدیق کس طرح ہو گی؟ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وہ ایک الگ معاملہ ہے ووٹوں کی گنتی سے کوئی معاملہ ختم نہیں ہو سکتا۔ ریٹرننگ افسر سب نہیں صرف مسترد وووٹوں کو دیکھے گا کہ کن بنیادوں پر ووٹ مسترد کیا گیا اور ووٹ مسترد کرنا غلط تھا کہ نہیں، دھاندلی کے الزامات کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ وکیل نے کہا کہ دھاندلی کے معاملے پر پوری قوم نزع کے عالم میں ہے نادرا آرڈیننس 2010ء رول اور آئین کے مطابق ہے کہ نہیں؟ شعبان میرانی جو پہلے ہارنے والے امیدوار تھے اب کامیاب ہو کر اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ انگوٹھوں کے نشانات فرانزک لیبارٹری سے چیک ہونے کے بعد رپورٹ ساتھ منسلک ہونی چاہئے تھی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ معاملہ صرف دو پٹیشن پر طے نہیں کیا جا سکتا مستقبل میں یہ کیس عدالت میں آنا ہی ہے عدالت ایسی تمام اپیلوں کو اکٹھا کر کے سننے کے لئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیتی ہے۔ اس نوعیت کے تمام کیسز یکجا کر کے ایک ہی مرتبہ فیصلہ ہونا چاہئے۔ بنچ نے انتخابی مقدمات کی اکٹھے سماعت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...