ملینیم ترقیاتی مقاصد ۔۔۔ آگے کیا؟

Sep 24, 2014

رچرڈ منٹ گمری

اس ماہ دنیا بھر کے ممالک سے وزراء کرام 69ویں جنرل اسمبلی کے لئے نیو یارک میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کی اولین ترجیحات میں سب سے پہلے عالمی سطح پر 2030 ء میں غربت کے شدید خاتمے کے لئے پائیدار ترقی کے اہداف پر بات چیت کرنا شامل ہے۔ جس میں ان مقاصد پر اقوام متحدہ میں اگلے ستمبر اتفاق کیا جائے گا جو کہ2030ء کے ملینیم ترقیاتی اہداف کا جانشین فریم ورک ثابت ہو گا۔ 2000ء میں جب ایم ڈی جیز کے منصوبے پر اتفاق ہوا تو شدید غربت کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر ریلیاں نکالی گئیں جس کی وجہ سے محض دس سالوں میں نصف غربت کا خاتمہ ممکن ہوا جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ دو ارب سے زائد افراد نے پینے کے پانی کے بہتر ذرائع حاصل کئے۔ تپ دق اور ملیریا سے نمٹے کے نمایاں اصول وضع کئے گئے اور بھوک پر بہت حد تک قابو پایا گیا۔ اسکے باوجود پندرہ سال بعد بھی صرف چند بچے ہی سکول جانے کے قابل ہوئے ہیں۔ چند لوگوں کو ہی غذا میسر ہے، چند لوگوں کے پاس پانی، حفظان صحت اور صفائی کے وسائل موجود ہیں۔ یہ سب قابل قبول نہیں ہے اور ہمیں اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی کے لئے ہی بین الاقوامی برادری نئے اہداف کے ساتھ ایک مقام پر اکٹھی ہو رہی ہے۔ ان اہداف کی رو سے 2030ء تک غربت کا خاتمہ ہو جانا چاہیے دنیا کے بچاؤ اور غربت سے نمٹنے کے لئے اس کی بنیادی وجوہات کے خاتمے کی یقین دہانی ضروری ہے۔ پاکستان کو اس وقت انہیں ترقیاتی چیلنجز کا ہی سامنا ہے۔12 لاکھ بچے اب بھی سکول نہیں جاتے۔ تقریباً نصف پاکستانی نوجوان غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پاکستان کی 182ملین آبادی میں 2050ء تک اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے تحت ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) شروع کیا گیا جس میں گزشتہ ہفتے گلوبل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ 2014 ء پیش کی گئی، جس میںکمزوریوں اور تعمیری کاموں میں لچک کوکم کرنے کی طرف پیشرفت کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا۔ پاکستانی حکومت میں لچک پیدا کرنے ، عوام کی خدمت کرنے اور معیشت اور معاشرے کی جامع تعمیر کے لئے یہ رپورٹ معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں 187 ممالک میں پاکستان کا نمبر 146 پر ہنوز برقرار ہے جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت کی ریٹنگ میں بالترتیب 142 اور 135 میں بہتری آئی ہے۔ گزشتہ دود ہائیوں میں بہت سے ممالک انسانی ترقی میں اصلاحات کے لئے رجسٹرڈ ہوئیں لیکن انسانی ترقی میں کامیابی کو تعمیری کاموں اور بحرانوں سے نمٹنے کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کو اس بات کا احساس ہے کہ ان معاملات کا حل ضروری ہے اور ان چیلنجز سے نمٹنے کا عزم بھی ظاہرکیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ نے پاکستان سے غربت کے خاتمے، تعلیمی اور صحت کے حصول میں بہتری لانے اور معاشی ترقی کے لئے پاکستان کے ساتھ شراکت میں کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ پاکستان نے رواں برس ترقیاتی اہداف میں ایم ڈی جیز کی پیشرفت اور 2015ء ترقیاتی ایجنڈے کا جائزہ لینے کے لئے اپنی پہلی قومی کانفرنس منعقد کی، حتٰی کہ پاکستان ابھی بھی بہت سے اہداف تک رسائی حاصل کرنے کی دوڑ میں پیچھے ہے لیکن کچھ علاقوں میں اچھی پیشرفت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ جیسے کہ پاکستان میں پانی کے بہتر وسائل تک رسائی حاصل ہوئی اور تپ دق کی نشاندہی اور طریقہ علاج کے ہدف کو پورا کیا گیا، ساتھ ہی ساتھ ایم ڈی جیز کے حصول پر بھی کام جاری ہے۔ پاکستانی حکومت نے 2025ء کی ترقیاتی منصوبہ بندی کا آغاز بھی کیا ہے جس میں نجی شعبوں کی پائیدار ترقی اور مسابقتی معیشت کے مقاصد شامل ہیں۔ حکومت کی نقد رقم کی منتقلی کا پروگرام (BISP) ایک اور مثال ہے جوحکومت نے غریب ترین افراد کے لئے برطانیہ کی شراکت سے ورلڈ بنک اور ایشائی ترقیاتی بنک کی معاونت سے شروع کیا۔ جس کا ماہانہ وظیفہ 300سے 1500روپے تک مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اقدامات غریب ترین خاندانوں کے لئے فائدہ مند ہیں اور میرے خیال میں یہ پرگرام انتہائی اہم ہے اور حکومت کو اس کے مؤثر عمل کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس سے قبل کہ پاکستان اقوام متحدہ میں پوسٹ2015ء ترقیاتی مقاصد میں اتفاق کرے پاکستان کے لئے اپنا یہ کام بین الاقوامی میدان میں دکھانے کا بہترین موقع ہے۔ یہ منصوبہ ایم ڈی جیز کے منصوبہ کا بہترین بدل ثابت ہو سکتا ہے اور یہ کہ ہمیں ایم ڈی جیز میںکن کمیوں کو کس انداز میں پورا کرنا ہے۔ غربت کی بہت سی بنیادی وجوہات ابھی بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنی ہے کہ آئندہ لائحہ عمل میں ان پر بھی قابو پایا جائے تاکہ معیشت اور معاشرتی ترقی کے راستے کھل سکیں۔اس مقصد کے حصول کے لئے ترقیاتی تعمیری کاموں میں رول آف لائ، تنازعات اور کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے اور شہریوںکے بنیادی حقوق جن میں خواتین اور وراثت میں جائیداد کے حصول کے لئے مضبوط اداروں کی تعمیرکو یقینی بنانا ضروری ہے۔ امن کا حصول تمام ممالک کی بنیادی ضرورت ہے خاص طور پر پاکستان کے لئے جہاں عدم استحکام اس کی ترقی پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ملکی ترقی کے لئے ایک ذمہ دار اور مؤثر پولیس فورس،سرمایہ کاری کے لئے مستحکم کاروباری ضوابط کی اشد ضرورت ہے جو ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کی خوشحالی میں نجی شعبوں کی متحرک سرمایہ کاری اور ترقی کے لئے ایک جامع حکمت عملی بھی ایک اہم عنصر ہے۔ جو کہ واضح اور مسلسل لاگو پالیسوں، ضوابط اور قوانین محفوظ پراپرٹی کے حقوق اور نئے کاروبار کی رجسٹریشن کے آسان مراحل پر مشتمل ہے۔ اس کو شہریوں کے لئے مؤثر بنانے لئے حکومتی اداروں کی جانب سے مؤثر اور جامع حمایت کی ضرورت ہے جو شہریوں کے لئے انکی ترقی کا ضامن ہو سکے۔ اس کا حصول صرف منصفانہ اور مؤثر ٹیکس ، رول آف لاء کے احترام ، ووٹ اور سیاسی خیالات کے اظہار کی آزادی سے ہی ممکن ہے۔ پر امن اور مؤثر اداروں کی ترقی بھی اس مقصد کے حصول میں معاون ہو سکتی ہے۔ نئے ترقیاتی منصوبے میں صنفی مطابقت پر بھی مذاکرات ہونے چاہئیں۔ جن ممالک میں خواتین اور مردوں کو برابری کے حقوق دیئے جاتے ہیں وہی ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ اس مطلب یہ ہے کہ خواتین کو ایک جیسی تعلیم اور اقتصادی مواقع فراہم کئے جائیں اور خواتین پر ظلم و تشدد کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ برطانیہ نے پاکستان سے عصمت دری اور جنسی تشدد کے خاتمے میں مدد کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ہم پاکستان میں بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، جنسی ہراساں کرنے، تیزاب پھینک کر جلانے اور شادی اور وارثت میں غیر مساوی حقوق سے نمٹنے کے لئے قوانین اور ضوابط بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ برطانوی حکومت دنیا بھر میں خواتین کو امتیازی سلوک اور تشدد سے بچانے کی مفت اصلاحات فراہم کر رہی ہے لیکن لاکھوں خواتین ، بچوں اور کو ایسا کرنے سے روکا جا رہا ہے خاص طور پر چھوٹی عمر میں شادی کی رسومات کا خاتمہ کرنے سے روکا جا رہا ہے۔برطانیہ میں جولائی میں پہلی بار ایک خاتون نے سربراہی اجلاس میں میزبانی کی جس میں وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان برائیوں کے سدباب کی کوشش کرتی ہوئی نظر آئیں۔ کم عمری کی شادیاں ماں اور بچے پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیںکم عمری کی شادیوں میں بھی لڑکیوں سے انکا بچپن اور تعلیم چھین لی جاتی ہے جس کا نتیجہ معاشی وسائل کے حصول میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور خواتین کی بہبود اور ان کے بچے اور پورا خاندان اس سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ اقتصادی مواقع نہ ہونے کے باعث کمائی محدود ہو جاتی ہے۔ خواتین کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں پر وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ کب اور کتنے بچے چاہئیں اس کا بات کا فیصلہ کرنے کا حق بھی خواتین کے پاس ہونا چاہیے۔ پاکستان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے ساتھ ایک اوپن ورکنگ گروپ میں صنفی بنیاد پر تشدد، مساوی اور وراثت کا حق اور امتیازی سلوک ختم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان عالمی سطح پران خیالات کا اظہار کرے گا، اپنے وعدوں پر قائم رہے گا اور دیگر ممالک کو بھی اس کی ترغیب دے گا۔ پاکستان اور برطانیہ غربت کے خاتمے پر کام کر رہے ہیں۔ پوسٹ 2015ء ترقیاتی ایجنڈا پاکستان اور برطانیہ کے لئے ملک کر کام کرنے کا ایک اہم موقع ہے جو کہ نہ صرف پاکستان کی ترقی کے عمل کو تیز کرنے میں اہم ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک عالمی فریم ورک قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
(مضمون نگار ڈی ایف آئی ڈی پاکستان کے سربراہ ہیں)

مزیدخبریں