قارئین کرام ! بھارت میں ڈاکٹر موہن بھگوت کی قیادت میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) اور اِس سے متعلقہ سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں سنگھ پریوار کے انتہا پسند ،ہندو توا، ایجنڈے کی نئے سرے سے تشریح کئے جانے کے بعد بھارتی سیاسی اور سماجی میدانوں میں بتدریج تبدیلیاں لانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر موہن بھگوت نے 2013 کی وجے دشمی کانفرنس میں سنگھ پریوار کی جماعتوں سے خطاب کرتے ہوئے اِس اَمر کی وضاحت کر دی تھی کہ بھارت میں الیکشن 2014 کے ذریعے سیاسی اور سماجی میدانوں میں تبدیلی لائی جائیگی جس کےلئے نہ صرف یہ کہ اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان اسٹریٹیجی کا تعین کیا گیا بلکہ اِس منفی طرز عمل پر پُرجوش عمل درامد کےلئے لوک سبھا کے انتخابات 2014 سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے سنیئر رہنماﺅں کو پالیسی امور سے علیحدہ کرتے ہوئے بی جے پی کی قیادت نسبتاً غیر معروف راج ناتھ سنگھ کے حوالے کی گئی ۔ چنانچہ 2014 کی انتخابی مہم ہندو بنیاد پرستی اور ہندو توا کے اصولوں پر اینٹی مسلم و اینٹی پاکستان تصور پر استوار کرنے کےلئے گجرات کے بدنام زمانہ وزیراعلیٰ نریندر سنگھ مودی کو آگے لایا گیا ۔ ڈاکٹر بھگوت نے اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان پالیسی پر عمل درآمد کو ممکن بنانے اور وادی¿ کشمیر میں ہندو توا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کےلئے انتہا پسند سنگھ پریوار کی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کےلئے 2013 میں کلکتہ ، نئی دہلی ، بنگلور اور احمد آباد میں چار اِن کیمرا کانفرنسوں کا انعقاد کیا جن میں صحافیوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ اِن کانفرنسوں کے شرکاءپر زور دیا گیا کہ وہ کانفرنسوں میں کئے گئے فیصلوں کو صحافیوں سے شیئر نہ کریں۔اہم بات یہ تھی کہ پہلے مرحلے میں 2014 کی انتخابی جنگ جیتنے کےلئے سنگھ پریوار کی انتہا پسند ہندو تنظیموں کی شراکت سے بھارت کے طول و ارض میں ہندو دیوی دیوتاﺅں کی ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے بھارت ماتا پر جان چھڑکنے والے ہندو یوتھ اور چائلڈ کیڈر کو ہندو توا ایجنڈے کےمطابق نئے سرے سے منظم کیا گیا تاکہ یہ پُرجوش ہندوطلباءو طالبات انتخابات میں مسلم ووٹ کے کردار کو بے معنی بنانے کےلئے بھارت کے طول و ارض میں ہندوﺅں کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت پر آمادہ کریں ۔ ڈاکٹر بھگوت نے اِن طلباءو طالبات کی ہندوانہ ثقافتی سرگرمیوں کو زور آور بنانے کےلئے آر ایس ایس کے عسکری تربیت یافتہ کیڈر کو اِن نوجوانوں کی یوتھ اسٹڈی اور ثقافتی تنظیموں کےساتھ منسلک کیا ۔ یہ درست ہے کہ بھارت میں یوتھ ووٹ بنک کے بڑھ جانے کے باعث آر ایس ایس کے عسکری تربیت یافتہ رضاکاروں نے جن کی تعداد وقت گزرنے کےساتھ دس لاکھ سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے اور جن کے بارے میں ہندوستان کے مشہور سماجی رہنما آنجہانی جے پرکاش نارئین نے 1972 میں آرایس ایس کے عسکری تربیتی کیمپ میں شرکت کے بعد کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں کوئی طاقت پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت کو اکھنڈ بھارت بنا سکتی ہے تو وہ صرف آر ایس ایس ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آر ایس ایس حمایت یافتہ طلباءو طالبات کی یہ ثقافتی یوتھ تنظیمیں تربیت یافتہ آر ایس ایس رضاکارکیڈر کی شراکت کے سبب سماجی طور پر ایک موثر یوتھ طاقت میں تبدیل ہو کر 2014 کے بھارتی انتخابات میں تبدیلی کا سگنل بن گئیں اور اِس طرح نریندر مودی نے انتہا پسند ہندو ووٹ کے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے کے سبب انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور بھارت کے وزیراعظم بن گئے ۔حقیقت یہی ہے کہ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد گذشتہ ایک برس میں بھارت کے ہر شہر اور قصبے میں انتہا پسند ہندو توا کلچر کو فروغ دینے کےلئے یوتھ اسٹڈی اور آریا ہندو سماج کی ثقافتی فکر کو مضبوط بنایا جا رہا ہے جہاں ہندو نوجوانوں میں اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان جذبات کو اُبھار کر دیوی دیوتاﺅں کی ہندو ثقافتی سرگرمیوں اور فزیکل عسکری تربیت کا کثرت سے اہتمام کیا جا رہا ہے ۔
دراصل بھارت کی موجودہ حکومت نریندر مودی کی قیادت میں برّصغیر جنوبی ایشیا میں ماضی کی ہندو ویدک تہذیب کی احیا کی پالیسی پر گامزن ہے جبکہ سنگھ پریوار کا مستند موقف یہی ہے کہ بھارت میں ہندو ملّی یکجہتی اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک ہندوستان کی تمام غیرہندو آبادی بشمول مسلمان اور عیسائی ہندو تہذیب میں جذب نہیں ہو جاتے یا اُنہیں بھارتی قومیت سے خارج نہیں کر دیا جاتا ۔ آریا ہندو سماج کی اِسی فکر کا مظاہرہ تقسیم ہند کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا جب ہندو وزیر داخلہ سردار پٹیل کی شہہ پر ہندوستان کے طول و ارض میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا گیا ۔ حتیٰ کہ اِس جنونی کیفیت کو روکنے کےلئے جب مہاتما گاندھی نے آواز بلند کی تو قرائن یہی کہتے ہیں کہ سردار پٹیل کی ہدایت پر گانگریس کی حمایت یافتہ ہندو مہا سبھا کے ایک سوامی نتھو رام وینائک گوڈژی نے ہندو مہا سبھا چھوڑ کر آر ایس ایس کی رکنیت اختیار کی اور اگلے ہی دن گاندہی جی کو دن دھاڑے قتل کر دیا ۔ حیرت ہے کہ اِس ہندو سوامی قاتل کی راکھ سنگھ پریوار کی تنظیم بجرنگ دل کے پاس محفوظ ہے جسے اِس نام نہاد قاتل کی وصیت کےمطابق اُس وقت دریائے سندھ کے پانیوں میں بہایا جائیگا جب مبینہ طور پر بھارت ماتا کا جھنڈا دریائے سندھ پر لہرائےگا ۔ یہی پروسس اب مودی حکومت نے سمجھوتہ ایکپریس اور مکہ مسجد دھماکوں میں ملوث ہندو انتہا پسندوں کو رہا کرکے شروع کیا ہے ۔
قارئین کرام ، نریندر مودی کی موجودہ بھارتی حکومت کے عزائم کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ بھارتی سرکاری اور نجی میڈیا کے ذریعے شروع کی جانے والی ہندوازم کی جذب کی موجودہ یلغار کو روکنے کےلئے اپنے گھر کو درست کیا جائے۔ حال ہی میں عرفان صدیقی کمیٹی کے نکات کے ذریعے ملکی نشریاتی اور اطلاعاتی ماحول کو قومی نصب العین کےمطابق ڈھالنے کےلئے انقلابی قدم اُٹھایا گیا ہے ، نوٹی فیکیشن بھی جاری ہوا ہے لیکن تاحال عملدرامد کا فقدان ہی نظر آتا ہے چنانچہ اصلاح احوال کی ضرورت مسلمہ ہے۔ وطن کے دفاع کےلئے محب وطن طلباءو طالبات کو بھارتی عزائم سے باخبر رکھتے ہوئے نظریہ¿ پاکستان اور جناح و اقبال ویژن سے نصابی کتابوں کو آراستہ کیا جائے کیونکہ یہ طلباءو طالبات ہی ہیں جو پاکستان کے دفاع میں دوسری دفاعی لائین کی حیثیت رکھتے ہیں وہ نہ صرف دشمن کے عزائم کےخلاف عوام کی بیداری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ محاذ جنگ پر اپنے جانبازوں کےلئے بیش بہا خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں۔ 1965کی جنگ میں طالبات نے شہریوں اور زخمی فوجیوں کو فرسٹ ایڈ بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ طلباءمحاذ جنگ تک گولیوں کی بوچھاڑ میں فوجیوں کو خوراک و خشک راشن پہنچانے میں پیش پیش رہے۔ یہ درست ہے کہ طلباءو طالبات کا پہلا کام کمال خوبی سے اپنی توجہ تعلیمی صلاحیت پر مرکوز رکھنا ہے لیکن جب قوم پر کوئی مشکل آئے تو ملک کی سلامتی اوّلین ترجیح بن جاتی ہے۔ ماضی میں تحریک پاکستان کے آخری تین برسوں میں یہ طلباءہی تھے جنہوں نے قائداعظم کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے شہیدوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر نئی قومی تاریخ رقم کی ہے ۔ ایک ایسے مرحلے پر جب دہشت گردی اور کرپشن میں گھری قوم مایوسی کا شکار تھی جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ہمارے نوجوانوں اور عوام الناس میں مایوسی کی فضا ختم کر کے نئی قومی اُمنگیں بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے چنانچہ ہمارے نوجوان قوم اور ملک کےلئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کےلئے پُر عزم ہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ازلی دشمن کا مقابلہ کرنے کےلئے طلباءو طالبات کو ضروری تربیت مہیا کی جائے تاکہ وہ مشکل وقت پر قوم کی بخوبی خدمت کر سکیں ۔
وطن کے دفاع کےلئے طلباءو طالبات کی ذہنی تربیت کی ضرورت
Sep 24, 2015