شراب اور رقص کی محفلوں پر پابندی۔۔۔!

Sep 24, 2015

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

حاکم دبئی نے ملک میں شراب نوشی ،منشیات اور رقص و سرور کی محافل پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔حاکم دبئی کا مرحوم شہزادہ ایک خوبرو، با صلاحیت اور قومی ہیرو تھا۔شہزادے شیخ راشد مرحوم کی موت پر دلی دکھ ہوا۔ باپ خواہ بادشاہ کیوں نہ ہو جوان بیٹے کی میت کو کاندھا دینا پڑے تو اس لمحے فقیر ہوتا ہے۔دنیا کو حسرت سے دیکھتا ہے کہ کوئی اس کی تمام دولت لے لے اور اس کا لخت جگر اسے لوٹا دے اور اس روز اسے علم ہوتا ہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ مفلس کوئی نہیں ۔تمام دولت بھی لوٹا دے مگر بچے کو اب محل واپس نہیں لے جا سکتا۔ مال اور اولاد کو آزمائش فرما دیا گیا ہے ۔جوان اولاد کی موت انسان کی زندگی میں تغیر کا سبب ہوتی ہے ۔ موت جیسی تلخ حقیقت پتھر دل باپ کو بھی موم کر دیتی ہے۔ اولاد کی جدائی کا صدمہ والدین کی زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ والدین خواہ بادشاہ ہو یا فقیر اولاد کا امتحان انہیںجھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے ۔ دبئی کی ترقی اور امارت مسلم ممالک کی پہچان ہے ۔ دبئی کا حاکم دنیا کا رئیس انسان ہے مگر بیٹے کو موت کے منہ سے نہ بچا سکا۔بیٹے کی موت کے بعد بادشاہ کی زندگی میں اہم تبدیلی دیکھنے کو آئی ۔بیٹے کے انتقال کا زخم ابھی تازہ ہے کہ بادشاہ نے ایک بڑا علان کرکے اس تبدیلی کا ثبوت دے دیا ہے۔ دبئی کے حاکم شیخ محمد بن راشد المکتوم نے فوری طور پر دبئی میں شراب نوشی ، منشیات اور رقص و سرور کی محافل پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔یہ فیصلہ انہوں نے اپنے جواں سالہ بیٹے کی موت کے تناظر میں کیا ہے۔ سرکاری اطلاع کے مطابق شہزادے کی موت حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی جبکہ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق منشیات کی زیادہ مقدار لینے کے باعث دل کا دور پڑا۔ ایک امیر ترین ملک کے بادشاہ کی دولت اور طاقت بھی اس کا ولی عہد نہ بچا سکی ،اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جسے ’’ بے بسی‘‘ کی انتہاء کہا جاتا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بیان فرمایا کہ ’’جب میں نے اپنے ارادوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا تو خدا کو پہچانا‘‘ وہ بلند ہستیاں تھیں ، ارادوں کے ٹوٹنے پر خدا کو دیکھ لیتے تھے مگر ایک دنیادار انسان اس دن ٹوٹتا ہے جس دن اس کی جوان اولاد اسے داغ فراق دے جائے۔ اس المناک لمحے پر بھی ہر انسان کو خدا محسوس نہیں ہو تا ،اگر خدا محسوس ہو جائے تو انسان کے اندر کا جہان بدل جائے ۔ جوان بیٹے کی موت نے دبئی کے حاکم کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ معاشرے کے جس ناسور نے اس کالخت جگر نگل لیا ہے وہ اس معاشرے کے نہ جانے کتنے گھر اجاڑ چکا ہے ۔ حاکم دبئی کا فیصلہ بیٹے کی موت پر تبدیلی کا بڑا ثبوت ہے۔ آخرت کا خوف دکھائی دیتاہے ۔معاشرے کو گناہ اور برائیوں سے بچانے کا فیصلہ بیٹے کے لیئے صدقہ جاریہ کا اہتمام بھی ہے۔عرب امارات ترقی اور امارت کے علاوہ عیاشی کے لیئے مشہور ہیں۔ اسلام کی علامت سمجھے جانے والے معاشروں کے اندرونی حالات دیکھ کر مغرب بھی دنگ ہے۔ حاکم دبئی کے فیصلے کے بعد رقص و سرور کے لیئے لائی جانے والی عورتوں کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجنے کا قانون بھی بنایا جائے گا۔ عیاشی کا یہ کاروبار بہت پہلے بند ہو جانا چاہیے تھا مگر شاید حاکم وقت کو کسی بڑی آزمائش سے دوچار کرنا مقصود تھا۔ غریب ملکوں کی عورتوں کوشادی اور ملازمت کا جھانسہ دے کر دبئی امپورٹ کرنے کا کاروبار بھیانک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ حاکم دبئی نے حج کے مقدس موقع پر اعلان کیا ہے کہ عید العضحیٰ کے بعد ملک بھر میں شراب ،منشیات اور عیاشی کے کاروبار اور محافل پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔حاکم دبئی نے یہ فیصلہ کسی مجبوری یا دکھاوے کی وجہ سے نہیں بلکہ دل کی چوٹ کھانے پر کیا ہے۔
شہزادہ شیخ راشد نہ صرف ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے بلکہ ایک بہترین کھلاڑی بھی تھے۔2006 میں شہزادے نے گھڑ سواری کے میدان میں گولڈ میڈل جیتے اور قومی ہیرو بن گئے۔وہ ولی عہد سلطنت کے عہدے پر بھی فائز تھے لیکن دو سال کے دوران کچھ ایسا ہوا کہ وہ منظر سے غائب ہو گئے اور پھر اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ ولی عہد کا علاج کرایا جا رہاہے اور انہیں عہدے سے ہٹا کر ان کے چھوٹے بھائی شیخ ہمدان کو فائز کر دیا گیا۔حاکم دوبئی ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئے ہیں ،پاکستان ان کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔ایسی خبر دنیا کے ہر والدین کو دکھی کر دیتی ہے جبکہ بیٹا ہونہار اور جوان ہو مگر ایسی خبریں ان والدین کے لیئے صبر کا باعث ہیں جو اس المیہ سے گزر چکے ہیں۔ شہزادے کی موت کے پس منظر نے باپ کی سوچ کوایک مثبت رنگ دیا ہے۔ حاکم پاکستان کو بھی اپنے معاشرے کے سدھار کے لیئے ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان فحاشی اور منشیات میں افسوس ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ حکومت معاشرے کی شرمناک سرگرمیوں کی جانب توجہ دے اور معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بے حیائی اور منشیات کا بر وقت تدارک کرے۔پاکستان جرائم کا گڑھ بنا دیا گیا ہے پھر بھی اس کے سادہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اس ملک میں عذاب کیوں آتے ہیں ؟نحوست کیوں ہے؟بے برکتی کیوں ہے ؟ یہ قوم کسی نجات دہندہ کی منتظر ہے کہ کوئی آئے اور اس ملک کو پندرہ صدیاں پرانا مدینہ منورہ بنا دے ۔ مدینہ میں ایک ابو جہل تھا مگر پاکستان ’’ابو جہلائ‘‘ سے بھرا پڑا ہے، اسے کون مدینہ بنائے۔سیاستدان بھی اس قدر چالاک ہو گئے ہیں کہ مثالیں عمر فارق ؓ کی دیتے ہیں اورکردار منافق عبداللہ بن ابی جیساہے ۔ دنیا میں مسلمان امت نہ بن سکے اور پاکستان کے عوام ایک قوم نہ بن سکے ۔ ایک طرف مسلمانوں کے تیل کے کنویں ابل رہے ہیں اور دوسری طرف دیا جلانے کو تیل میسر نہیں ۔

مزیدخبریں