اقوام متحدہ کا اجلاس اور وزیراعظم پاکستان....!!

Sep 24, 2016

سارہ لیاقت....پیغام امید

اقوام متحدہ کا 71اجلاس شروع ہو چکا ہے اور بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی بغیر کسی نتیجے کے سب ممالک اپنی بھانت بھانت کی بولیاں بول کر اپنے ممالک واپس روانہ ہو جائیں گے ۔ دنیا کو اس وقت جن گھمبیر مسائل نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اس میں سب سے بڑا مسئلہ طاقتور کا کمزور کے خلاف طاقت کے استعمال کا ہے جس نے دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے مسائل کو اس شدت سے جنم دیا ہے کہ ساری دنیا بالکل غیر محفوظ ہو کے رہ گئی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئےے کہ ایک ایسا موقع جب تما م دنیا کے سربراہان مملکت ایک پلیٹ فارم پہ موجود ہیں کوئی ایسا لائحہ عمل سامنے لایا جائے کہ ساری دنیا میں جہاں جہاں کمزور ظالم کے ظلم کا شکار ہیں خاص طور پر کشمیر ، شام ، فلسطین ، عراق اور برما وغیرہ میں ان کی داد رسی کے لئے کوئی پالیسی مرتب کی جائے۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ آج تک امریکہ کے تسلط سے آزاد ہو کر ایک غیر جانبدار ادارہ بن ہی نہیں سکا اور امریکہ جو کہ اصل میں ان تمام مسائل میں خود فساد کی جڑ ہے تو ایسی صورت میں امن کا خواب کیسے ممکن ہو سکتا ہے ۔
نواز شریف صاحب کی حالیہ اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کا ملک میں کافی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا تو گیا لیکن جو سب سے بڑی کمی تھی وہ شاید جوش اور اس اعتماد کی تھی جو دشمن کا ہاتھ جب شہ رگ تک پہنچ جائے تو اس کا ہوش ٹھکانے لگانے کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔
نواز شریف صاحب نے پچھلے برس اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی تقریر میں پہلی بار کشمیر کے مسئلے کی ناکامی پر اقوام متحدہ کے کردار پر سوال اٹھایا تھا ۔ اس تقریر نے حکومت کی کشمیر اور بھارت کے بارے میں پالیسی کو واضح کیا اور وزیر اعظم صاحب نے بھارت کے ساتھ امن کے لئے ۴ نکاتی فارمولا اقوام متحدہ میں پیش کر کے بال بھارت کی کورٹ میں ڈال دی جس کے نکات یہ تھے۔ پہلا کنٹرول لائن پر مکمل جنگ بندی ہونی چاہیے اور اس حوالے سے جو میکا نزم ۳۰۰۲ میں طے ہوا تھا اس پر عمل کیا جائے ، دونوں ممالک مل کے وعدہ کریں کہ ایک دوسرے کے خلاف دھمکی اور طاقت کا استعمال نہیں کریں گے ۔ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے حل ہونا چاہیے اور کشمیر سے فوجوں کو نکالا جائے اور سیاچن خالی کیا جائے ۔ بھارت نے ان تجاویز کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی اور یوں کمزور سفارت کاری کے باعث یہ تقریر محض لفاظی ہی رہ گئی ۔
اکیس ستمبر کو کی گئی وزیر اعظم صاحب کی تقریر کشمیر کے حوالے سے کافی بہتر تھی خاص طور پر حالیہ آزادی کی لہر کے بانی برہان وانی کو خر اج تحسین پیش کرنا اور ساری دنیا کو باور کروانا کہ کشمیر میں جاری جنگ در اندازی اور دہشت گردی نہیں بلکہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدو جہد ہے جس میں شدت برہان وانی کی شہادت کے بعد آئی ہے ۔ لیکن بھارت اس وقت کشمیر پہ جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اس کے لئے محض انکوائری کا مطالبہ ناکافی ہے ۔ جولائی کے مہینے سے اب تک تقریبا سوا سو سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے ۔ اس پر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بھارتی فوجیوں کی جانب سے بیلٹ گنز کا بے دریغ استعمال وہاں کے بچوں ، بڑوں کو معذور بنا رہا ہے لیکن انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں خاموش تماشائی بنی کشمیریوں کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا جو وزیر اعظم صاحب کشمیریوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کرتے اور پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشوں کو کھل کر دنیا کے سامنے لے کے آتے جس میں کلبھوشن یادیو سے لے کر اڑی سیکٹر تک اور کراچی اور بلوچستان میں بھارت کی شر انگیزیوں کی حقیقت کا پردہ چاک کیا جاتا ۔ وزیر اعظم صاحب کی تقریر میں ایک اور بہت اہم بات جس کا ذکر ہونا بہت زیادہ ضروری تھا وہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت کا جماعت اسلامی کے لیڈروں کو بے گناہ تختہ دار پر لٹکانے کا معاملہ ہے اب تک متعدد رہنما حسینہ واجد کی حکومت کا انتقامی نشانہ بن چکے ہیں۔ ہماری حکومت کی کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے بہت سے فورمز پہ جہاں ہم اپنے لوگوں کے لئے بہت عمدہ طریقے سے آواز اٹھا سکتے تھے ہمارا کیس کمزور رہا ہے اور نواز شریف صاحب کی اس حوالے سے خامو شی بہت مایوس کن ہے ۔
بھار ت کی اقوام متحدہ میں تقریر کی باری سومو ارکے دن ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی شعلے اگلتی زبان کیا گل کھلاتی ہے اور اپنے دفاع میں ہمیشہ کی طرح جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے وہ کس حد تک جاتا ہے اور اقوام متحدہ کشمیر یوں پہ ڈ ھائے جانے والے مظالم کے ثبوت دیکھنے کے بعد اس کو کوئی لگام ڈالتا ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح یہ اجلاس بے نتیجہ اختتام پذیر ہو جائے گا ۔ دوسری طرف یہ بھی اہم ہے کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے تمام معاملات کو آ گے کیسے لے کے چلتا ہے کیونکہ محض تقریروں سے تقدیروں کے فیصلے نہیں ہوا کرتے اپنا حق لینے کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ سفارتی محاذ میں بھی اتنی ہی کامیابی سے اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان کو قائل کریں کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے ورنہ پچھلے سال کی طرح اس سال کی وزیر اعظم صاحب کی یہ تقریر بھی وقت کی غلام گردش میں تحلیل ہو کر بے اثر ہو جائے گی ۔

مزیدخبریں