لبیک اللھم لبیک (2)

سب سے پہلے تو میں راولپنڈی کے محترم انور صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے بذریعہ ای میل مجھے متوجہ کیا اور میرے گزشتہ روز کے کالم میں سرزد ہونے والی سہو کی تصحیح کی۔ میں نے اپنے کالم میں اپنی فریضہِ حج کی ادائیگی کے حوالے سے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے مدعو کئے جانے کا تذکرہ کیا تھا جس پر انور صاحب نے میری تصحیح کی ہے کہ آپ درحقیقت ذاتِ باری تعالیٰ کے مہمان بن کر بارگاہِ ایزدی میں گئے ہیں۔ بے شک ربِ کعبہ کی رضا کے بغیر اس کے در اقدس پر حاضری کی کیسے توفیق و ہمت ہو سکتی ہے.... جاتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں۔ اگر بارگاہ ایزدی میں فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے لئے میری حاضری سعودی فرمانروا کی دعوت پر ممکن ہوئی ہے تو اس میں بھی ربِ کعبہ کی رضا ہی شامل ہے۔ وہ ربِ کعبہ جس کی رضا کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا، جو خالق کائنات ہے، جو ارض و سماوا تک ہر چیز پر قادر ہے۔ کیا اس کی رضا کے بغیر ہم اس کے عاجز، گناہگار بندے اس کے در اقدس پر حاضری کا سوچ بھی سکتے ہیں....

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا، کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
بارگاہِ ایزدی میں میری حاضری بلاشبہ ربِ کعبہ کی رضا کے ساتھ ہی ہوئی ہے جس پر تشکر کے نہ میرے پاس الفاظ ہیں نہ ہمت و استطاعت۔ بات تو ساری احساس کی ہے۔ اعتراف کی ہے اور خالق سے اپنی مخلوق کی بھلا کون سی چیز چھپی ہوئی ہے۔ قبولیت کا شرف و ظرف بھی اسی کا ہے۔ رحم و کرم کے خزانے بھی اس کی دسترس میں ہیں اور معافی کی ساری سبیلیں بھی اسی کے دستِ قدرت میں ہیں۔ ہم پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کی بنیاد پر بین الملکتی تعلقات کی وکالت کرتے ہیں اور اسی آفاقی اصول کے تحت کسی ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ تنازعات کے حل پر زور دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے مذہبی فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے حرمین شریفین میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں فرزندانِ توحید کا کئی روز تک باہم شیروشکر رہنا اور مناسک حج کی ادائیگی کے دوران دانستاً کسی کو تکلیف پہنچانے کا تصور بھی نہ کرنا ہی پرامن بقائے باہمی کا عملی نمونہ ہے۔ پھر رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی کے ذریعے انسانیت کی فلاح اور نظم و ضبط کے لئے نازل کئے گئے دین اسلام کا دہشت گردی سے ناطہ جوڑنے والوں کے مقاصد دنیا میں اسلام کا غلبہ روکنے والے ہی ہو سکتے ہیں جس کے لئے ہنود و یہود و نصاریٰ یکسو ہیں۔ سعودی عالمی اردو نشریات کے سربراہ ڈاکٹر لئیق اللہ خاں نے سعودی ریڈیو کی اردو سروس کے لئے میرا انٹرویو کیا اور پھر ”فریضہ¿ حج کا پیغام“ کے موضوع پر سعودی ریڈیو کے لائیو ٹاک شو میں شمولیت کا مجھے شرف بخشا تو میں نے حج کے عظیم الشان اجتماع کا اسی پیرائے میں تذکرہ کیا جس کی دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں کوئی مثال موجود نہیں۔ خدائے وحدہ لا شریک کی حقانیت تسلیم کرتے اور اپنی ”میں“ کو مار کر بارگاہِ ایزدی میں سر جھکاتے ”تو ہی تو“ کا اعتراف کرتے ہوئے فرزندانِ توحید درحقیقت پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول ہی کا ابلاغ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس عظیم اجتماع میں رنگ، نسل اور جنس کا کوئی فرق نہیں رہتا۔ خانہ خدا کا طواف کرتے ہوئے سفید رنگ کے احرام میں ملبوس فرزندانِ توحید اور عفت مآب خواتین کو اپنے اردگرد کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ انسانی معاشرے کی ریاکاریوں سے ان کا کوئی سروکار نہیں رہتا۔ ہر ایک کا شوق غلاف کعبہ کو چھونے، بوسہ دینے، رحمت کے پرنالے سے گزرتے ہوئے ذاتِ باری تعالیٰ سے اپنے لئے رحمتوں کی بارش کی تمنا کرنے کا ہوتا ہے اس لئے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی کوشش اور استلام کرتے ہوئے اور طواف مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز واجب طواف پڑھتے ہوئے فرزندان و دخترانِ توحید کو دنیاوی آلائشوں میں لپٹی اپنی اناﺅں کا ہرگز خیال نہیں آتا۔ کالے، گورے، ناٹے، لمبے، جوان و ضعیف، فقیر و تونگر، تنومند و لاغر سب بسم اللہ اللہ اکبر وللہِ الحمد کا ورد کرتے حجراسود کی طرف منہ کرکے طواف کا آغاز کرتے ہیں اور خانہ خدا کے دائرے میں سات چکر پورے ہونے تک بس یاد الٰہی میں مگن رہتے ہیں۔ طواف کے بعد صفا و مروا پر سعی کرتے ہوئے بھی اپنی اناﺅں کا شائبہ تک ان کے ذہن رسا میں نہیں آتا۔ پھر منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج ادا کرتے ہوئے اور جمرات میں تین روز تک شیطان کو کنکریاں مارنے والی رمّی کی رسم ادا کرتے ہوئے خدا کے حضور اپنی عاجزی کے سوا انسانی جبلت کے کسی دوسرے اظہار کا خیال ہی سجھائی نہیں دیتا.... یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے“
اتنے عظیم انسانی اجتماع کو کنٹرول کرنا، ان کی خوراک و رہائش، علاج معالجہ اور حوائج ضروریہ کی سہولتوں کا اہتمام کرنا بلاشبہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ شرف سعودی حکومت کو حاصل ہوا ہے تو اس فریضے کی سعادت حاصل کرنے میں وہ کوئی کسر بھی نہیں چھوڑتے۔ بے شک حج کا اجتماع سیاحت کے فروغ کے ناطے سعودی عرب کے ریونیو میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے مگر مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لئے لاکھوں فرزندان توحید کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے اور اسی ناطے سے سعودی حکومتی مشینری ہمہ وقت چاک و چوبند نظر آتی ہے۔
گزشتہ برس فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر چونکہ دو مختلف سانحات رونما ہوئے جن میں سینکڑوں حجاج کرام نے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں ایک سانحہ خانہ کعبہ میں ایک تعمیراتی کمپنی کی بھاری بھرکم کرین گرنے سے اور دوسرا سانحہ جمرات میں رمی کی رسم کے دوران بھگدڑ کے باعث رونما ہوا جبکہ اس سال ماہ رمضان المبارک میں جدہ اور قطیف کے علاوہ مدینہ منورہ میں بھی روضہ¿ رسولﷺ کے باہر دہشت گردی کی مذموم وارداتیں ہوئیں اس لئے سعودی حکومت نے حفاظتی انتظامی اقدامات میں اس حکمت کو بھی پیش نظر رکھا کہ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران حجاج کرام کا سارا اجتماع بیک وقت ایک جگہ پر نہ ہونے دیا جائے، اس کیلئے مفتی اعظم سعودی عرب سے فتویٰ حاصل کر کے انسانی جانوں کے تحفظ کو ترجیح دیتے ہوئے مناسک حج کے اوقات اور ترتیب میں رد و بدل کیا گیا۔ رمی کے تینوں دن شیطان کو کنکریاں مارنے کا دورانیہ 12 گھنٹے سے بڑھا کر 24 گھنٹے کر دیا گیا تاکہ حجاج کرام اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی وقت یہ فریضہ ادا کر سکیں۔ اسی طرح منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج کی ادائیگی کی ترتیب میں رد و بدل کیا گیا اور یہ حکمت عملی انتہائی کامیاب رہی جس کے باعث حجاج کرام گزشتہ سال جیسے کسی بھی سانحہ سے محفوظ رہے۔ اسے حالات اور وقت کی مناسبت سے اجتہاد کی عملی شکل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ سعودی عمائدین اور حکام نے بھی اسی ترتیب کے ساتھ مناسک حج ادا کئے اس لئے فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے مراحل میں کسی وسوسے کی گنجائش نہیں نکل سکتی۔ حنیف خالد اور شوکت پراچہ تو ویسے ہی مطمئن تھے۔ ہمارے ساتھی حبیب اللہ سلفی نے پاکستان میں بعض جید علماءکو فون کر کے ان کی رائے معلوم کی تو انہوں نے بھی وقت کی مناسبت سے مناسک حج کی ترتیب میں رد و بدل کو درست قرار دیا چنانچہ اس بارے میں دل میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ بھی دور ہو گیا اور پھر ذات باری تعالیٰ ہی ہمارے ایمان و ایقان کی محافظ ہے جس کے روبرو لاکھوں سر جھکے تھے تو اس کی رحمت و برکت کے خزانوں کو ہی سمیٹ رہے تھے۔

ای پیپر دی نیشن