اللہ رب العزّت نے جہاں فاروق اعظم عمر ابنِ خطاب کی حیات ِمبارکہ کو مسلمانوں کے لیے ثمر بار بنایا،وہیںپر آپ کی اولادِ امجاد کو بھی آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنایا،آپ کی اوّلاد میں بڑے بڑے صاحبانِ کمال پیدا ہوئے۔برصغیر پاک وہند کی مسلم تہذیب کو دوبڑے فاروقی بزرگوں سے فیض اٹھا نے کا موقع ملا، (۱) حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ،(۲) حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ ۔ بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر برصیغر میں اسلام کے نہایت اہم مبلغین میں سے ایک ہیں ۔ تبلیغِ دین کے ساتھ ساتھ برصغیر کی مسلم تہذیب وثقافت پر بھی آپ کے نقوش انتہائی گہرے اور انمٹ ہیں۔ چنگیز خانیوں کی یورش کے بعد ان کے جدِامجد قاضی شعیب اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آئے پھر قصور میں آباد ہوگئے اور کچھ دنوں کے بعد ملتا ن کے ایک نواحی قصبے (کتھوال ) کے قاضی مقرر ہوگئے۔ ان کے بیٹے شیخ جمال الدین کی شادی ملّا وجیہہ الدین کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی ۔جن کے بطن سے (571 ہجری میں) حضرت فرید الدین مسعود کا تولّد ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی ، جوانتہائی عابدہ،صالحہ اور کاملہ تھیں۔بعدازاں ملتا ن آگئے اور سرائے حلوانی کے قریب جامع مسجد میں قیام کیا اور مولانا منہاج الدین ترمذی سے درس فقہ لینا شروع کیا اور قرآن پاک بھی حفظ کیا۔
اسی مسجد میں ان کی ملاقات اپنے زمانے کے نہایت مشہور بزرگ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے ہوئی ، ان سے بہت متاثر ہوئے اور ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے،اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے ساتھ دہلی جانا چاہتا ہوں لیکن خواجہ صاحب نے عبادت ، ریاضت اور روحانیت میں مشغولیت سے پہلے علمِ ظاہری کی تکمیل کی ہدایت فرمائی۔ اس ہدایت کے بعد آپ نے بڑے مراکز علم کا رخ کیا۔ قندھار، سیستان ،غزنی ،بخارا، سیوستان اور بد خشاںمیں ناموراہلِ علم کے پاس حاضری دی اور اکتساب کیا ،پھر بغداد میں وقت کی نہایت عظیم المرتبت علمی اور روحانی شخصیت حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مشہور زمانہ کتاب ’’عوارف المعارف‘‘کا درس لیا۔ آپ نے ان کے انداز ِتدریس کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔کہتے ہیں کہ شیخ اس قدر خوش اسلوبی سے پڑھاتے تھے کہ مجھ پر بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ فرماتے ہیںکہ شیخ کے پاس روزانہ دس ہزار درہم سے زیادہ رقم آتی تھی لیکن وہ اسے شام سے پہلے راہِ خدامیں خرچ کردیتے تھے۔ تکمیلِ علوم کے بعد بہت سے نامور اہلِ علم وفضل سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے مربی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ان کی ہدایات کی روشنی میں اذکا روعبادات میں مشغول ہوگئے۔ دہلی میں انھیں برصغیر کے نامور بزرگ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی زیارت اور اکتساب کا شرف بھی حاصل ہوا ،خواجہ صاحب نے آپ کی استعداد کی بہت تعریف کی اور فرمایا : فرید ایک ایسی شمع ہے جس سے خانوادئہ درویشاں منّور ہوگا۔