افغان صدر اشرف غنی نے‘ جو ان دنوں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے سلسلے میں امریکہ گئے ہیں‘ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، جس کے بعد دونوں صدور نے میڈیا سے بھی ملاقات کی۔ افغان صدر اشرف غنی نے ایک مرتبہ پھر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے رعونت آمیز لہجے میں کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ پاکستان کو اس بار واضح پیغام مل گیا ہوگا کہ اب معاملات پہلے کی طرح نہیں چل سکتے جبکہ یہ انکے کسی مفاد میں بھی نہیں ہے۔ توقع ہے کہ پاکستان مشترکہ قومی مفادات کو ترجیح دیگا۔
افغان صدر کے پاکستان پر یہ الزامات نئے نہیں ہیں لیکن جب سے صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے موصوف کے لہجے میں مزید جارحیت آگئی ہے۔ وہ صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد پاکستان کے دورے پر آئے تو اُنکی غیر معمولی پذیرائی کی گئی اور انہیں دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کیا گیا۔ اسکے بعد سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کابل کا دورہ کیا تو واضح کہا ’’ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان کی ہمیشہ سے یہی پالیسی رہی ہے اور وہ اُس پر سختی سے کاربند ہے لیکن بدقسمتی سے صدر اشرف غنی مودی کے ٹریپ میں آکر پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی پرقائم نہ رہ سکے اور بھارت کے پروپیگنڈہ سے مسحور ہوکر پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے لگے۔ پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جانی و مالی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دوسری طرف آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد اور آپریشن خیبر فور کے دوران فرار ہونیوالے دہشتگردوں کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کئے گئے جنہیں پاکستان میں دہشت گردی کیلئے اسلحہ اور پیسے سے مدد دی جاتی ہے۔ توقع ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی پالیسی سے رجوع کرکے خطے میں قیام امن کیلئے افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا قلع قمع کرائیں گے جہاں سے پاکستان میں دہشت گرد بھجوائے جاتے ہیں۔
افغان صدر کی پھر ہرزہ سرائی
Sep 24, 2017