اب دوسرے ریاستی اداروں کو پارلیمنٹ کے مقابل لانے کی کوشش کی گئی تو یہ قومی المیے پر منتج ہو سکتی ہے

Sep 24, 2017

اداریہ

سینٹ سے ’’انتخابات بل 2017‘‘ کی متفقہ منظوری سے میاںنوازشریف کیلئے دوبارہ پارٹی قیادت سنبھالنے کی راہ ہموار

سینٹ نے بھی گزشتہ روز ترامیم کے ساتھ ’’انتخابات بل 2017‘‘ کی متفقہ منظوری دے دی جبکہ اس میں اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔ بل کی منظوری کی حتمی ووٹنگ میں اپوزیشن کی طرف سے مخالفت نہ کی گئی اور بل کی شق 203 بھی منظور کرلی گئی جس کے تحت کوئی بھی نااہل یا سزایافتہ شخص پارٹی صدر بن سکے گا۔ اس حوالے سے سینٹ کے قائد حزب اختلاف پیپلزپارٹی کے چودھری اعتزاز احسن کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے مسترد ہوگئی جس سے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس شق کی حمایت میں 38 اور مخالفت میں 37 ووٹ آئے۔ انتخابات بل کی منظوری میں ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی طرف سے حکومت کی حمایت کی گئی جبکہ پیپلزپارٹی کے تین ارکان سینٹ نے بھی حکومت کا ساتھ دیا جس پر چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے اجلاس کی صدارت سے انکار کردیا اور کارروائی پانچ منٹ کیلئے ملتوی کرتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھ کر چلے گئے۔ بعدازاں 25 منٹ کے وقفے کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ عبدالغفور حیدری نے ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھایا۔ انتخابات بل میں چودھری اعتزاز احسن کی جانب سے لائی گئی ترمیم میں نااہل اور سزایافتہ شخص پر کسی جماعت کا صدر بننے کی پابندی برقرار رکھنے کا کہا گیا تاہم یہ ترمیم منظور نہ ہوسکی۔ سینٹ میں منظور کردہ انتخابات بل کی روشنی میں کسی رکن پارلیمنٹ کی نااہلی زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہوگی۔ سینٹ سے منظور کردہ اس بل کو اب دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا‘ جہاں اسکی اسی شکل میں منظوری دی گئی تو یہ نیا انتخابی قانون بن جائیگا۔ 

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 1973ء کے آئین کے تحت قائم وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام میں سینٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل پارلیمنٹ ہی کو آئین و قانون کے تحت سسٹم اور امور حکومت و مملکت کی انجام دہی کیلئے گائیڈ لائن اور ہدایات جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ پارلیمنٹ ہی قانون سازی‘ مروجہ قوانین اور آئین کی کسی شق میں ترمیم و تنسیخ کی مجاز اتھارٹی ہے اور دوسرے ریاستی اداروں نے پارلیمنٹ کے وضع کئے گئے قوانین اور قواعد کار کے مطابق ہی اپنے فرائض سرانجام دینا ہوتے ہیں۔ اگر کسی قانون یا آئین کی کسی دفعہ میں کسی قسم کا ابہام ہو تو پارلیمنٹ میں ترمیم لا کر یا کوئی متبادل قانون منظور کرکے اس ابہام کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت میاں نوازشریف کی بطور رکن قومی اسمبلی نااہلیت سے یہ معاملہ ابھی تک آئینی‘ قانونی اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ یہ نااہلیت عمر بھر کیلئے ہے یا اسکی کوئی میعاد مقرر ہے۔ انکی بطور رکن اسمبلی نااہلیت کے ساتھ ساتھ انکی پارٹی کی سربراہی سے نااہلیت کا معاملہ بھی اسی تناظر میں موضوع بحث ہے کہ اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہونیوالا پارٹی کی قیادت سے کیسے نااہل ہو سکتا ہے جبکہ پارٹی قیادت اسمبلی سے باہر بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہے۔
اس تناظر میں مجوزہ انتخابات بل 2017ء خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسکے باضابطہ قانون کے قالب میں ڈھلنے کے بعد نااہلیت کی میعاد اور پارٹی سربراہی کیلئے بھی نااہلیت کے حوالے سے آئین کی متعلقہ شقوں میں موجود ابہام دور ہو جائیگا۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ آئین کی دفعہ 63جی اور 63 ایچ کے تحت کسی شخص کی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلیت کی تو پانچ سال کی میعاد متعین کردی گئی ہے مگر آئین کی دفعہ 62‘ ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر نااہل ٹھہرائے گئے کسی شخص کی نااہلیت کی کوئی میعاد متعین نہیں۔ اسی بنیاد پر پانامہ کیس کے فیصلہ میں میاں نوازشریف کی نااہلیت کیخلاف دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست میں نااہلیت کی میعاد متعین کرنے کی بھی استدعا کی گئی تھی تاہم ان درخواستوں میں میاں نوازشریف کی نااہلیت کی سزا تو برقرار رکھی گئی مگر عدالت عظمیٰ کے متعلقہ فاضل بنچ کے مختصر فیصلہ میں نااہلیت کی میعاد کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا چنانچہ اب پارلیمنٹ ہی اس قانونی یا آئینی سقم اور ابہام کو دور کرنے کا مجاز فورم ہے۔
یہ معاملہ پہلے ہی انتخابات بل 2017ء کے ذریعے قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا تھا۔ اس بل کا مقصد انتخابی عمل اور طریقہ کار سے متعلق آئین و قانون میں موجود اسقام کو دور کرنا تھا جس کی قومی اسمبلی نے اسکی شق 203 سمیت منظوری دی اور آئین کی دفعات 62‘ ایف اور 63 جی اور ایچ کے تحت اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار پانے والے کسی شخص کیلئے پارٹی کی سربراہی کیلئے پابندی ہٹالی گئی جو آئین و قانون کی کسی شق کے تحت نہیں بلکہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے ذریعے لگائی گئی ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ قومی اسمبلی میں تو پیپلزپارٹی کے ارکان نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا مگر جب یہی بل سینٹ میں لایا گیا تو چودھری اعتزاز احسن کی جانب سے اس جواز کے تحت شق 203 میں ترمیم پیش کردی گئی کہ قومی اسمبلی میں حکومت نے انتخابات بل کی متذکرہ شق بھی خاموشی کے ساتھ منظور کرالی ہے حالانکہ ایک سزا یافتہ شخص کو کسی جماعت کا سربراہ بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ چودھری اعتزاز احسن کو سینٹ میں اپنے اس موقف پر نہ صرف پذیرائی نہیں ملی بلکہ انکی پارٹی کے تین ارکان سینٹ نے بھی انکے موقف کیخلاف حکومت کا ساتھ دیا اور انکی ترمیم ایک ووٹ کی اکثریت کے ساتھ مسترد ہو گئی۔ چونکہ سینٹ میں مجوزہ انتخابات بل کی بعض نئی ترامیم کے ساتھ منظوری دی گئی ہے اس لئے اس بل کو حتمی منظوری کیلئے واپس قومی اسمبلی میں لانا لازمی آئینی تقاضا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اس بل کے مسترد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قومی اسمبلی کے فورم پر بدستور حکمران مسلم لیگ (ن) اور اسکی اتحادی جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی سے دوبارہ منظوری کے ساتھ یہ بل قانون کی شکل اختیار کرلے گا جس کی شق 203 کے تحت میاں نوازشریف کی نااہلیت کے باوجود انکے دوبارہ پارٹی صدر بننے کا راستہ ہموار ہو جائیگا اور آئین کی دفعہ 62۔ ایف میں بھی نااہلیت کی زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی میعاد متعین ہو جائیگی۔
یہ آئین اور قانون کی عملداری کی جانب تو بلاشبہ درست اقدام ہے تاہم اپوزیشن پارلیمنٹ کے اس فیصلہ کو قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے سینٹ سے اس بل کی منظوری کے ساتھ ہی الزام عائد کردیا ہے کہ ایک نااہل شخص کیلئے تمام حدیں پھلانگی جارہی ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے اس بل کی منظوری کی شکل میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے جبکہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد سینٹ سے اصلاحات بل میں ترمیم کو اخلاقیات پر حملے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح جو حلقے میاں نوازشریف کو سیاست سے مستقل طور پر آؤٹ کرنے کے متمنی ہیں اور اس مقصد کیلئے مختلف سازشی تھیوریاں منظرعام پر لاتے رہتے ہیں‘ انہیں بھی پارلیمنٹ کے ذریعے میاں نوازشریف کو پارٹی سربراہی کیلئے اہل قرار دینے کا فیصلہ ہضم نہیں ہوگا جس سے ممکنہ طور پر پارلیمنٹ اور دوسرے ریاستی آئینی اداروں میں محاذآرائی اور تنائو کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائیگی تو اس سے ملک میں پھر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی فضا سازگار ہو جائیگی۔
اس صورتحال میں بادی النظر میں تو میاں نوازشریف کے دوبارہ پارٹی کی سربراہی سنبھالنے کا امکان نظر نہیں آتا تاوقتیکہ انتخابات بل کے ذریعے انکی نااہلیت کی متعین ہونیوالی پانچ سال کی میعاد پوری نہیں ہوتی۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ ہماری سیاست میں عدلیہ یا کسی دوسرے فورم پر صادر ہونیوالے اپنے مخالف کسی فیصلہ کو قبول کرنے کا کلچر پیدا ہی نہیں ہونے دیا گیا جبکہ مخالفانہ فیصلوں کو قبول نہ کرنے کے کلچر کو سب سے زیادہ پی ٹی آئی اور اسکے قائدین نے فروغ دیا ہے جو اب تک سپریم کورٹ‘ الیکشن کمیشن‘ کسی ٹربیونل یا کمیشن کے اپنے مخالف کسی فیصلہ کو انصاف و قانون کی عملداری کے تحت قبول کرنے کے روادار نظر نہیں آتے۔ یہ کلچر بنیادی طور پر پارلیمانی جمہوری نظام کو پنپنے نہ دینے پر منتج ہوتا ہے جس سے ماورائے آئین اقدامات والے غیرجمہوری عناصر کو سسٹم کیخلاف اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع ملتا ہے۔
عمران خان اگر مروجہ انتخابی نظام سے مطمئن نہیں اور اس میں اصلاحات چاہتے ہیں تو انتخابی اصلاحات کا پارلیمنٹ ہی مجاز فورم ہے جبکہ عمران خان کی پارلیمنٹ میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ وہ موجودہ پارلیمنٹ کی اب تک کی سوا چار سال کی میعاد میں صرف چھ بار قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہوئے ہیں۔ اگر وہ پارلیمنٹ میں ہونیوالی کسی قانون سازی کو بھی قبول نہیں کرتے تو اس سے یہی مراد ہے کہ انہیں آئین کے تحت قائم پارلیمانی جمہوری نظام سوٹ ہی نہیں کرتا اور وہ ہر صورت اقتدار میں آنا چاہتے ہیں‘ چاہے اس کیلئے انہیں ماورائے آئین اقدامات کے عزائم رکھنے والوں کی انگلی ہی کیوں نہ پکڑنی پڑے۔ اگر انہیں سینٹ کے منظور کردہ انتخابات بل پر کسی قسم کا اعتراض ہے تو وہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی اس میں ردوبدل کا راستہ اختیار کریں جس کیلئے انہیں بہرصورت پارلیمنٹ پر اعتماد کرنا ہوگا۔ اگر وہ میاں نوازشریف کو پارلیمنٹ سے بالابالا سیاست سے مستقل آئوٹ کرانے کا کوئی راستہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہ لامحالہ جمہوریت مخالف عناصر کے ہی ساتھی قرار پائیں گے۔ وہ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت نہ ہونے کے باعث اپنی من پسند ترامیم کرانے کی پوزیشن میں نہیں تو پورے سسٹم کو تو اسکی سزا نہ دیں۔ اسکے برعکس وہ کوشش کریں کہ آئندہ انتخابات میں انہیں پارلیمنٹ میں عددی اکثریت حاصل ہو جائے۔ انہوں نے ہر ایشو پر اودھم مچانے کی کوشش کی تو وہ آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کی راہیں مسدود کرنے ہی کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔

مزیدخبریں