اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں تین بار اضافہ

Sep 24, 2018

احمد کمال نظامی

 احمد کمال نظامی 
بے روزگاری اور اشیاءضروریہ کے درمیان ریس لگی ہوئی ہے۔ نئی حکومت کے قیام کو ابھی ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا اور اس ایک ماہ کے دوران اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں تین بار اضافہ ہو چکا ہے۔ پہلے تو پولٹری صنعت کے حوالہ سے بوائلر مرغی کے گوشت کے نرخ یومیہ بنیاد پر مقرر ہوتے تھے لیکن مارکیٹ میں بوائلر مرغی کے گوشت کے ریٹ گرنے کی بجائے ان میں اضافہ ہی ہوتا تھا۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی تھی تو مارکیٹ میں پانچ روپے مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافہ ہو چکا تھا جبکہ سبزیوں کے حوالہ سے بات کریں تو حکمراءاور ڈاکٹرز حضرات زیادہ سے زیادہ گوشت کے مقابلہ میں لوگوں کو سبزیاں کھانے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ سبزیوں کے بھا¶ بھی بوائلر مرغی کے گوشت کی طرح اتار چڑھا¶ کا شکار نظر آتے ہیں۔ عام مارکیٹ، بازاروں، ماڈل بازاروں میں ایک سروے کے مطابق نو ستمبر سے سبزیوں اور پھلوں کی قیمت میں تواتر اضافہ ہی نظر آتا ہے جبکہ اتوار بازاروں میں بھی بعض سبزیاں سرکاری نرخوں کے مقابلہ میں 30 سے 50فیصد مہنگی فروخت ہوتی رہیں۔ ان میں مقامی لیموں، گوبھی، بند گوبھی، بھنڈی اور دیگر سبزیاں شامل ہیں جبکہ ایک خبر کے مطابق فوڈ اتھارٹی نے ایک چھاپہ کے دوران سیوریج اور کیمیکل زدہ زہریلے پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں ضائع کر دیں کیونکہ یہ سبزیاں اپنے کیمیکل اثرات کی بناءپر مختلف خطرناک بیماریوں کے جنم لینے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ مارکیٹ میں دو طرح کی ریٹ نظر آتے ہیں یہ کام کون کرتا ہے اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں سبزیوں اور دالوں میں مقابلہ میں بوائلر مرغی کا گوشت نسبتاً مہنگا ہونے کے باوجود زیادہ فروخت ہو رہا ہے اور اب تو بوائلر مرغی کے پنجے بھی مارکیٹ میں فی درجن کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں جبکہ بکرے کے پائے کی قیمتیں تو آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں اور قدرے وزنی بکرے کے چار پائے بارہ سو روپے میں فروخت ہو رہے ہیں۔ سرکاری طور پر جو ریٹ لسٹ جاری کی جاتی ہے اس میں بہت سی اشیاءضروریہ کی چیزوں کے ریٹ ہی درج نہیں ہوتے۔ ان میں بکرے، گائے، بھینس کے پائے بھی شامل ہیں جبکہ صورت حال اس وقت پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں 11واں ملک ہے جہاں برائلر مرغیوں کی پیداوار 1-2 ارب سالانہ ہو گئی ہے اور ایسوسی ایشن کے صدر خلیل ستار کا یہ کہنا ہے کہ پولٹری کی صنعت میں مرغیوں کی خوراک میں کسی قسم کے ہارمونز کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی خوراک خالصتاً قدرتی اجزاءپر مشتمل ہوتی ہے۔ اس دعویٰ کے باوجود پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے ارکان اس سوال کا کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ یورپی ممالک میں بھی برائلر مرغی کا گوشت ہی لوگوں کی خوراک کا اہم جزو ہوتا ہے اور اس گوشت کا ذائقہ اور معیار ہمارے ہاں کی دیسی مرغی جیسا ہوتا ہے اور ہمارے ہاں فروخت ہونے والی برائلر مرغی کا گوشت ایسے ہوتا ہے کہ جیسے ربڑ کھایا جا رہا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ عمران خان نے جب سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے اشیاءضروریہ کی قیمتوں کو پر لگے ہوئے ہیں گو اشیاءضروریہ کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا وفاق کی بجائے صوبائی حکومت اور بعض صورتوں میں مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن اشیا©ءضروریہ کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ سے عوام کی امنگوں اور امیدوں کو ٹھیس ضرور پہنچی ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہے۔ یہ معاملہ غور طلب ہے اور وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ قبل ازیں بھی متعدد بار اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کر چکے ہیں کہ آڑھتی مافیا کا کردار اس معاملہ میں بڑا اہم ہوتا ہے اور یہ آ©ڑھتی مافیا ہی ہے جو طلب سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اشیا©ءکی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیتا ہے اور مصنوعی قلت پیدا کر کے ایک بحران پیدا کر دیتا ، اب آڑھتیوں کے پیداکردہ بحران پر قابو پانے کے لئے فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر سید احمد فواد نے بھرپور انداز میں نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو محبوب احمد کو حالات حاضرہ یعنی اشیاءضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی ذمہ داری سپرد کی ہے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو محبوب احمد نے صارفین کے نمائندوں، پرچون فروشوں، تاجروں اور پرائس کنٹرول کمیٹی کے ایک مشترکہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اشیا©ءضروریہ کی قیمتیں مقرر کرنے پر اتفاق رائے ہوا ہے اور اس اجلاس کی سفارشات کی روشنی میں طے پایا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹی جو اشیاءضروریہ کے ریٹ مقرر کرنے کی ان ریٹوں سے زیادہ کسی پرچون فروش اور ہول سیلرز گو اشیاءفروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ گراں فروشی کرنے والوں کے خلاف سخت کریک ڈا¶ن کیا جائے گا اس کی ذمہ داری انتظامیہ کے افسران کی ہو گی جو اپنے اپنے حلقہ اختیار میں قیمتوں کا مسلسل جائزہ بھی لیں گے اور چیکنگ بھی کریں گے۔ اس اجلاس میں تاجروں کی نمائندگی اسلم بھلی اور را¶ ہاشم نے کی۔ فیصل آباد میں تاجروں کے دو گروپ ہیں اسلم بھلی ایک گروپ کے لیڈر ہیں لیکن سرکاری طور پر اس اجلاس کے حوالہ سے جو پریس ریلیز جاری کیا ہے۔ کہا گیا کہ صارفین کے نمائندوں نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ تلاش کے باوجود صارفین کے کسی نمائندہ کا نام نظر نہیں آیا۔ ضلعی انتظامیہ اعلیٰ افسران کے نزدیک صارفین کی مخلوق کہاں پائی جاتی ہے۔ اگر انتظامیہ کے پسندیدہ اور ان کی بک میں شامل افراد خاص ہی صارفین کے نمائندے ہیں تو پھر ایسا اجلاس کرنے کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی۔ بات اتنی ہے کہ تاجر جو ریٹ مقرر کرتے ہیں اور ان کا معیار طلب اور رسد کے فارمولا کا مرہون منت ہوتا ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ اعلیٰ افسران کو مارکیٹ کے بھا¶ کا کوئی علم نہیں ہوتا کیونکہ ان کے کچن میں تو من و سلوا اترتا ہے اور آڑھتی ہو یا تاجر وہ افسران اعلیٰ کو شیشہ میں اتارنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ایسے اجلاس میں اس ہنر کا وہ خوب مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی پسند پر ریٹ مقرر کرا کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔

مزیدخبریں