گلگت بلتستان کے ضلع سکردو سے راولپنڈی آنیوالی بس موڑ کاٹتے ہوئے باب سر ٹاپ کے قریب گِٹی داس کے مقام پر پہاڑ سے ٹکرا گئی۔ حادثہ انتہائی دل دہلا دینے والا تھا۔ اس حادثے کے نتیجے میں 27 مسافر مر گئے اور 15 افراد شدید زخمی ہو گئے۔ 27 خاندان تو تباہ ہی ہو گئے کیونکہ 27 مرنے والوں میں ہر جاں بحق ہونے والے کا خاندان اس وقت درد و الم کی تصویر بن گیا ہے۔ جو پندرہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ وہ بھی زندگی بھر کیلئے اپنے کسی نہ کسی عضو سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پھر انہیں گہرے گھائو آئے ہیں۔ ایک ڈرائیور اور ڈاکٹر کی غفلت اور لاپرواہی انسانی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتی ہے جب لوگ کسی ٹرین، بس، ویگن، رکشہ، چنگ چی میں بیٹھ جاتے ہیں تو انکی زندگیاں ڈرائیور کے ہاتھ میں آ جاتی ہیں اور ہمارے ہاں عموماً ڈرائیوروں میں اس قدر جہالت، وحشت اور بربریت پائی جاتی ہے کہ اگر ان پر ڈاکومینٹری بنائی جائے تو اندازہ ہو کہ ڈرائیوروں کی بڑی تعداد جاہل ہونے کے علاوہ جنون اور وحشت میں مبتلا ہوتی ہے۔ زیادہ تر ڈرائیور وہ لوگ بنتے ہیں جنہیں اور کوئی کام کرنا نہیں آتا۔ ان کی فطرتوں میں تشدد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ آپ کسی ویگن، بس، ٹرک اور ٹرالے کے ڈرائیور سے بات کر کے دیکھیں۔ اسکی ڈرائیونگ دیکھیں تو لگے گا کہ انکے اندر جنون اور وحشت ہے ۔ بسوں میں اونچی اور دل پر دہشت کر دینے والی موسیقی انہیں دل و جان سے پسند ہوتی ہے۔ تیز اور سخت قسم کے میوزک سے ان میں تھرِل پیدا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ سر بھاری ہونے کے علاوہ سُننے والے کا کلیجہ بھی پھٹ جائیگا۔ بسوں میں جہاں واہیات موسیقی اونچی ترین آواز میں لگی ہوتی ہے وہاں بیہودہ اور مار دھاڑ یا عشق و عاشقی والی فلمیں بھی لگی ہوتی ہیں۔ شکر ہے کہ ڈائیوو ٹاپ کی بس سروس کی صورتحال بہتر ہے ورنہ عام پبلک ٹرانسپورٹ سے ایک سُلجھے ہوئے آدمی کو سیدھا سا ہارٹ اٹیک آ سکتا ہے۔ مجھے دو یا تین بار زندگی میں بس کی سواری کا اتفاق ہوا۔ گزشتہ سال مجھے سوات سے واپسی پر ڈائیوو کی ٹکٹ نہ مل سکی۔ اگلی بس چلنے میں چار گھنٹے باقی تھے ۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ جو بھی بس لاہور جا رہی ہے۔ ہم اس میں چلتے ہیں۔ ہم ٹکٹ لیکر بس میں بیٹھ گئے۔ یہ میری زندگی کا دردناک سفر تھا۔ میں نے دس گھنٹے اذیت میں گزارے۔ میں پہلی بار ایک فضول بس میں بیٹھی تھی۔ اس قدر اونچی آواز میں چنگھاڑتے گانے لگا رکھے تھے کہ آدھا گھنٹہ میں میرا سر گھوم گیا۔ آدھا گھنٹہ یہ خوفناک موسیقی بند ہوئی تو ہماری پچھلی سیٹوں پر بیٹھے پانچ لڑکوں نے موبائل پر گانے لگا دئیی جو اسی طرح بے ڈ ھنگے اور بے ڈھب تھے۔ انہیں ڈانٹ کر موبائل بند کروائے تو ڈرائیور نے پھر گانے لگا دئیے۔ میں نے غصے میں آ کر پھر ڈانٹا تو اس نے منہ بنا کر بند کر دئیے۔ رات کا وقت تھا سردیوں کی اندھیری راتیں اور ڈرائیور بس کو راکٹ کی طرح چلا رہا تھا۔ ڈرائیور نے فلم لگا لی۔ ایکبار پھر میرا غصہ آسمانوں کو چھونے لگا۔ ڈرائیور منہ بگاڑ کر بولا۔ ’’میڈم جی! آپ تو ہیڈ ماسٹرنی لگتی ہیں۔‘‘ میں نے کہا تم اپنے لوگوں کو لیکر جا رہے ہو۔ اتنا لمبا سفر ہے۔ اتنے پہاڑ اور موڑ ہیں اور تم کبھی گانے لگاتے ہو کبھی فلم اور کبھی بس کو 200 میل کی رفتار سے چلا رہے ہو۔ ایک لمحے کی غفلت سے ہم سب کی جان جا سکتی ہے۔ ڈرائیور زور زور سے ہنسنے لگا اور بولا۔ ’’میڈم جی! آپ پہلی بار ایسی بس میں بیٹھی ہیں۔ ہمارا تو روز کا کام ہے۔ بس کو تیز بھگانے کا ہی مزا ہے۔‘‘ میں ڈرائیور کی ڈھٹائی سے زچ ہو کر چپ ہو گئی کیونکہ آدمی جہالت اور منافقت سے نہیں جیت سکتا۔ بہرحال یہ وقت میں نے خوف اور اذیت میں کاٹا اور کلمہ پڑھ کر آنکھیں بند کر کے سیٹ سے ٹیک لگا لی۔ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ڈرائیوروں کی تربیت نہیں کی جاتی۔ بالکل جاہل گنوار اور وحشت سے بھرے ہوتے ہیں۔ موڑ پر بھی بھری ہوئی بس ایسے کاٹتے ہیں جیسے بس نہیں، لٹّو ہو۔ ایک بھری ہوئی بس ایک حاملہ عورت کی طرح ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں ڈرائیوروں کی کسی قسم کی ٹریننگ نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں والی سڑکوں پر جب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ گلگت میں جو حادثہ ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر میرا دل کپکپا کر رہ گیا۔ میں سارا دن مغموم اور افسردہ رہی۔ موت تو سب کو آنی ہے لیکن بے وقت اور بھیانک موت صرف غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حکومت کو صرف ان ڈرائیوروں کو لائسنس دینے چاہئیں جو تربیت یافتہ اور بااخلاق ہوں۔ خدا رسول اور قرآن پر حلف لینے کے بجائے انکے ماں باپ اور بیوی بچوں کے سر کی قسم دینی چاہئے کہ وہ رفتار کی حدود سے تجاوز نہیں کرینگے۔ بداخلاقی کے مرتکب نہیں ہونگے۔ آپ غور کیجئے کہ حادثہ زیادہ تر بسوں ویگنوں رکشوں ٹرینوں، چنگ چیوں اور موٹر سائیکلوں کا ہوتا ہے۔ کاروں کے حادثات نسبتاً کم ہوتے ہیں کیونکہ گاڑی ہم خود چلاتے ہیں۔ گاڑی کے حادثے کی صرف دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک تیز رفتاری، دوسرے کسی اور کی غفلت لاپرواہی۔ سب سے زیادہ حادثات موٹر سائیکلوں کے ہوتے ہیں کیونکہ موٹر سائیکل سوار سڑک کے بیچ میں موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں آجتک ٹی وی اور دیگر چینلز پر ٹریفک رولز کی آگہی پر کوئی ڈاکومینٹری نہیں چلائی جاتی۔ ٹریفک سگنلز کے اصول نہیں بتائے جاتے۔ ٹریفک حادثات کی وجوہات نہیں بتائی جاتیں۔حکومت تو اللّے تللکوں میں لگی ہے اور ہم کشمیر کے حوالے سے ایک نئے حادثے کیلئے خود کو تیار رکھیں۔ اللہ اپنی امان میں رکھے۔