لاہور/ اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+ نمائندہ خصوصی) متحدہ مجلس عمل کے صدر اور جمعیت علماء اسلا م (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی صدر پیر اعجاز ہاشمی سے انکی رہائش گاہ گارڈن ٹائون میں ملاقات کی اور پیر اعجاز ہاشمی کی عیادت کے ساتھ ملکی سیاسی و معاشی صورتحال اور آزادی مارچ پر بات چیت کی۔ دونوں جماعتوں کے قائدین میں حکومت مخالف تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ملکر جدوجہد کرنے کا عزم کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ ہر صورت ہوگا۔ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ نظر بندی سے مارچ کی قیادت کریں گے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے رابطے میں ہیں۔ شیخ رشید سے کسی قسم کا رابطہ ہوا اور نہ ہی کوئی پیغام پہنچایا گیا۔ شیخ رشید نے آزادی مارچ پر کوئی پیغام بھیجا نہ کوئی بات ہوئی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت اور آزادی مارچ پر متفق اور رابطے میں ہیں۔ ہم مذہبی کارڈ استعمال نہیں کر رہے۔ حکومت کے جانے کا وقت قریب ہے۔ جعلی حکومت کو گھر جانا ہوگا۔ جعلی وزیر اعظم اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ نہ لڑ سکے، عالمی طاقتیں کشمیر کے مسئلے ہر ہمارے ساتھ نہیں۔ اقوام متحدہ میں عمران خان پاکستان کا نمائندہ نہیں، امریکہ آنکھ مارتا تو مطمئن ہو جاتے ہیں۔ سب متفق ہیں کہ نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔ جعلی حکومت کو نہیں مانتے اگر گرفتار ہوا تو نظربندی سے قیادت کروں گا۔ عام آدمی ان کے حکومت مخالف بیانیے سے متفق ہو چکا ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ ان کا کہنا تھاکہ شہباز شریف کے ساتھ ایک کمٹمنٹ ہوئی تھی کی حکمت علمی آپس میں طے کریں گے۔ اتوار کے روز قائد حز ب اختلاف سے ہونے والی ملاقات حکمت عملی طے کرنے کیلئے ہی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ میں سب چیزیں ہیں اس میں جمہوریت، بیروزگاری ہے اور کشمیر بھی ہے۔ پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ نئے پاکستان میں لاوا پھٹے گا اس لئے آزادی مارچ امن و امان کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان میں نظام مصطفیٰ قائم ہوکر رہے گا۔ 25 جولائی کے انتخابات کے نتائج کو تمام جمہوری قوتوں نے مسترد کیا تھا۔ جے یو آئی ایف کا پیپلز پارٹی سے رابطہ ہوا ہے جس میں دھرنے میں شرکت سمیت مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے اے پی سی یا رہبر کمیٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز دے دی اورپیپلز پارٹی نے جے یو آئی ایف کے موقف کو مسترد کردیا اور کہا کہ مشترکہ حکمت عملی اے پی سی یا رہبر کمیٹی کے اجلاس میں مرتب کی جائے، سینیئر رہنمائوں کی بیٹھک سے قبل پیپلز پارٹی پر تنقید کا جواز نہیں بنتا۔ سابق چیئرمین سینٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیر حسین بخاری نے کہا ہے کہ جے یو آئی ایف کے رہنمائوں کو ایسے بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے اے پی سی میں شامل پارٹیوں کو اعتراض ہو۔ بہتر ہے کہ مولانا فضل الرحمن اے پی سی کا اجلاس بلائیں اگر یہ ممکن نہیں تو اکرم درانی رہبر کمیٹی کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی احتجاجی تحریک شروع کرنے سے قبل اس بات کے حق میں ہے کہ اے پی سی بلائی جائے۔