قابلِ رحم شہباز شریف اور یوٹیلیٹی اسٹورز کی الٹی گنگا!!!!

مریم نواز شریف یہ سمجھتی ہیں کہ پارٹی اور  ملک ان کی جاگیر ہے اور میاں نواز شریف کی وراثت میں یہ سب کچھ انہیں منتقل ہو جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ الگ انداز میں سیاست کرتے ہوئے اپنے چچا میاں شہباز شریف سمیت ان کے تمام ہم خیالوں کا بھی بیڑہ غرق کرنے سے پہلے باز نہیں آئیں گی۔ وہ جس طرح کے بیانات دے رہی ہیں اس کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ ملک میں بیٹھ کر الطاف حسین کا کردار ادا کر رہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ اس سے پہلے آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کے تین مرتبہ کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے ملکی سلامتی کے اداروں سے متعلق جو رویہ اختیار کیا تھا اس کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ اقتدار سے دوری نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی عقل پر پردے ڈال دئیے ہیں۔ اقتدار سے علیحدگی، تخت کا چھن جانا، پروٹوکولز کا خاتمہ، شاہی زندگی کا اختتام، جھکے ہوئے سر اور احکامات جاری کرنے کی طاقت ختم ہونے کے بعد لندن میں موجود میاں نواز شریف ملک میں صرف ایک ہی ادارے کو ہدف بناتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ وہ ادارہ افواج پاکستان ہے۔ فوج ان کا ہدف ہے اور وہ مسلسل فوج کو متنازع بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کوششوں سے وہ صرف اور صرف ملک میں عدم استحکام اور پاکستان کے دشمنوں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ ہر کام کرنے کو تیار ہیں۔ فوج کو متنازع بنانا یا فوج کو کمزور ثابت کرنے کا فائدہ کسے ہو سکتا ہے یا یہ کس کی خواہش ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی بتانے والی بات نہیں نہ ہی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے۔ پاکستان کے ہر دشمن کی یہی خواہش ہے کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر قائم اس ملک کو ہر لحاظ سے کمزور کر دیا جائے۔ ملکی سلامتی کی ضامن اور ملک کی بقا اور سلامتی کو یقینی بنانے والی فوج کو ہدف بنانا اور اسے اپنا سیاسی حریف سمجھنا، اس پر یقین رکھنا اور پھر اسے پوری شدت کے ساتھ میڈیا میں بیان کرنا واضح کرتا ہے کہ وہ حصول اقتدار کی کوشش میں ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ جی ایچ کیو میں ڈنر کا علم نہیں، شاید ڈنر نہیں ہوا، سننے میں آیا ہے کہ  گلگت کے مسئلے پر بلایا گیا تھا۔ یہ مسئلہ سیاسی، عوامی نمائندوں اور ان کے حل کرنے کا مسئلہ ہے ایسے فیصلے جی ایچ کیو نہیں پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں۔ ایسے مسائل پر  سیاسی قیادت کو بلانا چاہیے نہ سیاسی قیادت کو جانا چاہیے جس نے آنا ہے وہ پارلیمنٹ آئے۔
مریم بی بی کا یہ بیانیہ ان کی فوج دشمنی، دفاعی اداروں سے اکتاہٹ کا کھلا ثبوت ہے اس کا مقصد صرف اور صرف ملک کو اپنی جاگیر بنانا اور ملک دشمنوں کو پاکستان میں ہر قسم کی کارروائیوں کی اجازت دینا ہے۔ فوج ہمارے ملک کی ہے، سیاست دان ہمارے ملک کے ہیں ملک کی سلامتی اور بقا سب کی اولین ترجیح اور بنیادی مقصد ہے۔ وہ جی ایچ کیو جائیں یا جی ایچ کیو والے پارلیمنٹ آئیں مقصد تو ایک ہی ہے۔ مقصد تو یہی ہے کہ سب مل کر ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں۔ مریم بی بی کو شاید یاد نہیں کہ عسکری قیادت پارلیمنٹ آتی رہتی ہے۔ اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں اپنے والد کی دشمنی کو نبھاتے ہوئے وہ  حد سے  آگے نکل چکی ہیں۔  یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور اس کے خاندان نے صرف اپنے اقتدار کے لیے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جس کا نتیجہ یا انجام صرف اچھا نہیں ہو سکتا۔ سادہ لوح اور  معصوم عوام کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ ملک کے تمام اداروں بالخصوص حکومت کو مریم نواز شریف کے بیانات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 
مریم بی بی بتاتی ہیں کہ "وہ نہیں جانتیں کہ ڈنر ہوا جب کہ احسن اقبال اور خواجہ آصف بھی آرمی چیف سے ملاقات میں شہباز شریف کے ساتھ تھے۔ یہ بھی کہتی ہیں کہ شہباز شریف بھائی کے ساتھ وفادار ہیں وہ الگ نہیں ہونگے" 
شہباز شریف نے بھی فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے بھائی کے ساتھ وفاداری نبھانی ہے یا پھر ملک کا وفادار بننا ہے۔ شہباز شریف کی حالت اس وقت قابل رحم ہے وہ اپنے بھائی کی نسبت زیادہ تحمل مزاج اور وقت کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں میاں نواز شریف کی طرح "انا" کے غلام یا محتاج نہیں ہیں۔ شہباز شریف نسبتاً صلح جو اور مل جل کر کام کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں اور اداروں کے لیے بھی قابل قبول ہیں لیکن دوسری طرف وہ اپنی خاندانی روایات میں اس حد تک بندھے ہوئے ہیں کہ بڑے بھائی کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ اب تک اپنے بڑے بھائی کو بچاتے آئے ہیں اور آج بھی اسی کوشش میں ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی بڑے بھائی کی غلطیوں کو سدھارتے ہی گذر گئی ہے لیکن نہ میاں نواز شریف "انا" کی قید سے باہر نکل سکے ہیں نہ ہی میاں شہباز شریف کے مسائل کم ہوئے ہیں لیکن مریم نواز شریف کی سیاست میں آمد سے یہ فلسفہ مضبوط ہوا کہ پارٹی قیادت وراثت میں میاں نواز شریف کے گھر رہے گی اور مریم نواز شریف کی موجودگی میں بھی شہباز شریف گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ہی نظر آئیں گے۔ خاندانی روایات پر عمل کرتے ہوئے ان کی کمزور فیصلہ سازی بھی شامل ہے۔ آج بھی پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے میاں نواز شریف سے ہی ہدایات لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے یہ میاں شہباز شریف بھی جانتے ہیں اور اگر وہ بڑے بھائی سے الگ ہوتے ہیں تو ان کی مسلم لیگ کی حیثیت بھی دیگر مسلم لیگوں کی طرح الف ب پ ت سے زیادہ نہیں ہو گی۔ یہی اس جماعت کا المیہ ہے اگر جمہوری 
روایات کے مطابق جماعت قائم کی جائے اور ان روایات کو فروغ دیا جائے تو لوگ شخصیت پرستی سے باہر نکلتے ہوئے روایات اور مقاصد سے محبت کرتے ہیں۔ اس صورتحال اور طریقہ کار سے قیادت کا بحران بھی پیدا نہیں ہوتا نہ ہی نظام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ جمہوریت کے فروغ کے لیے متبادل قیادت تیار کریں شخصیت پرستی کے بجائے مقاصد کا تعین کریں اور ووٹرز کو مقاصد ست محبت کے لیے تیار کریں۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بھی اسی سوچ کو آگے بڑھانا چاہیے۔
مریم بی بی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عسکری قیادت سے ملنے والوں میں میاں نواز شریف کا کوئی نمائندہ نہیں تھا یعنی ایک طرف وہ اپنے چچا کو وفادار بھائی قرار دے رہی ہیں تو دوسری طرف خود ہی انہیں اپنے والد کی نمائندگی سے بھی محروم کر رہی ہیں۔ عسکری قیادت سے ملنے والوں میں اکیلے شہباز شریف ہی نہیں تھے ان کی جماعت کے دیگر اہم رہنما بھی تھے ان بیانات کے بعد تو تقسیم اور سوچ کا فرق واضح ہو جاتا ہے لہذا گیند ہر طریقے سے میاں شہباز شریف کے کورٹ میں ہے وہ ایسے ہی پچھلی سیٹ پر رہنا چاہتے ہیں، الگ ہونا چاہتے ہیں یا پھر چودھری نثار علی خان کی طرح کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی آپشنز نہایت محدود ہیں۔ مریم نواز کے بیانات اور طرز سیاست نے شہباز شریف کو بھی بند گلی میں بھیج دیا ہے۔ وہ چھلانگ لگاتے ہیں، یا واپسی اختیار کرتے ہیں یا پھر دیوار سے سر ٹکراتے رہتے ہیں اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔
یوٹیلیٹی اسٹورز کو عین کرشنگ سیزن کے آغاز پر چینی امپورٹ کرنے کا شوق پیدا ہوا ہے۔ کرشنگ سیزن کے شروع میں جب کرشنگ سیزن شروع ہو رہا ہے اور اس مرتبہ چینی معمول کی سے بیس پچیس فیصد اضافی پیداوار ممکن ہے جبکہ معیار میں ماضی کی نسبت بہتر ہو گا اس وقت چینی امپورٹ کرنے کی اجازت مانگنا مناسب فیصلہ نہیں ہے۔ اس وقت تو چینی اندرون ملک چینی کی قیمتوں میں کمی کا امکان ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ مسئلے کے پائیدار حل کے بجائے ڈںگ ٹپاؤ پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ اپنے سال بھر کی چینی کا تخمینہ لگائے محتاط اندازے کے مطابق اڑھائی لاکھ چینی کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس میں رمضان المبارک کے لیے دس ہزار ٹن اضافی چینی شامل ہے۔ اتنی چینی خریدنے کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ کسی قومی بینک سے باآسانی معاہدہ کر کے کرشنگ سیزن کے دوران ہی شوگر ملوں سے خرید ملیں۔ اگر یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ یہ کام کرنا چاہے تو سال بھر چینی کی قیمتوں میں ناصرف استحکام رہے گا بلکہ سال بھر چینی کنٹرول ریٹ پر دستیاب رہے گی۔ حکومت پر بوجھ بھی کم ہو گا اور ایک نئے انداز سے کاروبار کیا جا سکے گا لیکن کیا یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ایسے معاہدوں کے لیے پیشکشوں کو تیار کر سکیں۔ بینکوں اور شوگر ملوں کے ساتھ تعمیری اور بامقصد و بامعنی گفتگو کر سکیں۔ ایسے کاموں کے لیے انتظامیہ میں اہل افراد کا ہونا ضروری ہے اگر چیئرمین اور مینجنگ ڈائریکٹر کو سمجھ نہ آ سکے کہ یہ سب کام کیسے ہو سکتا ہے تو ہماری خدمات حاضر ہیں تشریف لائیں عوامی فلاح اور کمزور طبقے کی مدد کے لیے ہماری خدمات حاضر ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز بینک سے معاہدے کے بعد ہر ماہ بینک کو ادائیگی کریں اور چینی اسٹورز پر رکھوا دیں۔ اس اقدام سے حکومت بھی سبسڈی سے بچ جائے گی اور مارکیٹ میں بھی چینی کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کو اپنی کم از کم تین لاکھ ٹن چینی شوگر ملوں میں ہی محفوظ کروا دینی چاہیے۔ حکومت آئندہ سیزن کے لیے بہتر حکمت عملی اختیار کرے تو چینی کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے۔ اگر ذخیرہ اندوزی کو روکا گیا، شوگر ملز مالکان کے ساتھ بہتر تعلقات اور بہتر کاروباری بات چیت کی گئی تو فصل میں اضافے کی بدولت چینی کی قیمتوں میں کمی کا امکان موجود ہے لیکن اگر گذشتہ برس کی طرح حکومت کے معاشی جادوگروں نے غلط پالیسیاں بنائیں تو پھر عوام کو مہنگی چینی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پنجاب کی چینی سندھ جاتی رہی، سندھ کی خیبر پختونخوا اور وہاں کی کسی اور ملک جاتی رہے گی تو اپنے ملک کے لوگوں کو سستی چینی نہیں مل سکے گی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ کو بھی مختلف صوبوں میں وہاں کی شوگر ملوں سے ہی چینی خریدنے کی حکمت عملی پر کام کرنا چاہیے تاکہ ٹرانسپورٹ کے خرچے کو بچایا جا سکے۔ اب اتنے مشورے حکومت کو یہاں مل رہے ہیں یہ سب قابل عمل تجاویز ہیں لیکن ان سب کو سمجھنے کے لیے دماغ کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ اگر متعلقہ شعبے یا وزارتوں نے اس حوالے سے کام کرنا ہے تو تشریف لائیں انہیں الف سے ی تک سمجھا دیا جائے گا۔ کیونکہ دو سال میں انہوں نے کچھ نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے  وزراء اور یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ نے ابھی اس اہم ترین شعبے کی الف ب بھی نہیں سیکھی۔
آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ روکنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ گندم اور آٹے کی قیمتوں میں استحکام  حکومت کے لیے مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ چکی کا آٹا اٹھہتر روپے فی کلو ہو چکا ہے اور آئندہ مہینوں میں یہ قیمت اور اوپر جا سکتی ہے۔ ان قیمتوں میں تیزی سے اضافہ بھی ممکن ہے۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوتا ہے تو آٹے اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہے۔ حکومت ابھی تک آٹے کی قیمتوں کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے اور آئندہ بھی کامیابی مشکل ہے کیونکہ جب تک یہ سمجھ نہ آ جائے کہ ضلعی انتظامیہ کے ذریعے یہ کام نہیں کروایا جا سکتا اس وقت تک عوام کو مصیبت کا سامنا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...