نیا سیاسی اتحاد عوام کیلئے یا پھر کرسی کیلئے؟

Sep 24, 2020

اختلاف جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت رائج ہے یہاں اختلاف کے انداز مختلف ہیں۔آپ حکومت میں ہیں تو آپکے مطابق انتخابات شفاف ہوئے ہیں اور اگر آپکی حکومت نہیں تو پھر آپکو ہر طرف دھاندلی اور پنکچر ہی نظر آتے ہیں۔جمہوریت کے حسن یعنی اختلاف کی خوبصورتی اس وقت ماند پڑتی ہے جب مخالفین اخلاقی قدریں کھو دیتے ہیں اور سیاسی اختلاف ذاتیات میں تبدیلی ہوجاتے ہیں۔پھر مخالفین کیخلاف بدکلامی بھی کی جاتی ہے،انکی نازیبا تصاویر بھی چھاپی جاتی ہیں ان پر زانی،شرابی اور ڈاکو ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے،انہیں یہودی ایجنٹ بھی ثابت کیا جاتا ہے اور ڈیزل چور بھی کہا جاتا ہے۔عجب بات یہ ہے کہ ہر ایسا عمل سیاسی شخصیات کو حق سچ نظر آتا ہے اور پھر کبھی بھی وہ عوام کے وسیع تر مفادات میں ایک بھی ہوجاتے ہیں۔ماضی کی طرح ایک بار پھر اپوزیشن جماعتیں عوام کے وسیع تر مفادات میں ایک ہوگئیں۔پیپلز پارٹی کی جانب سے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی جس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری،مولانا فضل الرحمان اور میاں شہباز شریف سمیت اپوزیشن جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ویڈیو لنک سے کانفرنس کا حصہ بنے۔جماعت اسلامی نے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی۔اس کانفرنس میں جہاں حکومتی جماعت پر تنقید کی گئی وہیں جمیعت علما ئے اسلام کے سربراہ اور میاں نواز شریف کی جانب سے ملکی اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔اپوزیشن نے حکومت مخالف الائنس کے نام پر مشاورت کے بعد اسے‘’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ’’کا نام دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کے درمیان باہمی مشاورت کے بعد اس کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔اس اعلامیے میں جتنے بڑے بڑے دعوے کئے گئے ہیں ان میں سے 50فیصد پر بھی حزب مخا لف کی جماعتوں کا عمل کرنا مشکل ہوگا۔ آل پارٹیز (اے پی سی) کانفرنس میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ حکومت مخالف یہ لانگ مارچ جنوری 2021ء کو ہوگا۔اپوزیشن کے لانگ مارچ سے قبل ملک بھر میں ریلیاں اور جلسے ہوں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک طرف تو پیپلز پارٹی کی قیادت بار بار زور دے رہی ہے کہ ملک میں کورونا وائرس پھر سر اٹھا رہا ہے لہذا تعلیمی ادارے بند کئے جائیں کیوں کہ سماجی فاصلہ قائم نہیں کیا جارہا وہیں دوسری جانب جلسوں کا اعلان کیا جارہا ہے۔اے پی سی نے وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا  گیا ہے۔علامیے کے مطابق اپوزیشن ربر اسٹمپ پارلیمنٹ سے کوئی تعاون نہیں کرے گی، موجودہ حکومت  نے پارلیمان کو مفلوج کردیا ہے، متحدہ اپوزیشن  نے ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان  کیا اور کہا کہ  اس تحریک میں وکلا، تاجر،کسان، عوام اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائے گا۔پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ماضی میں مخالف جماعتیں رہی ہیں اور انکے درمیان اعتماد کا فقدان رہا ہے۔موجودہ سیاسی صورتحال میں دونوں جماعتیں ایک پیج پر تو ہیں لیکن کیا یہ اتحاد قائم رہے گا؟یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان جماعتوں کے تمام اراکین اس اتحاد سے خوش نہیں ہوں گے نہ ہی انکا اعلامیے سے اتفاق کرنا لازم ہے۔ دوسری جانب اگر یہ مان لیا جائے کہ اگر عمران خان کے پیچھے واقعی کسی کا ہاتھ ہے تو اپوزیشن کیلئے استعفیٰ لینا ناممکن ہوگا۔میاں محمد نواز شریف کی تقریر پر جہاں ملک میں انکی جماعت کے لوگ خوش ہیں وہیں پڑوسی ملک میں بھی شادیانے بج رہے ہیں۔انکی تقریر سے دنیا کو یہ تاثر دیا گیاہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں۔یہ کیسا انصاف ہے کہ ماضی میں آمروں کے ساتھ بیٹھنا جائز تھا لیکن اس دور میں فوج کا سربراہ اگر وزیراعظم سے ملاقات کرلے تو وزیراعظم سلیکٹڈ بن جاتا ہے َ؟موجودہ حکومت کی کارکردگی کسی صورت اطمینان بخش نہیں ہے  عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی مخالفت بڑھ رہی ہے ایسے میں اپوزیشن کا ایک ہونا،حکومت مخالف تحریک چلانا عام سی بات ہے ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن اب سیاسی جماعتوں کو اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا،ماضی میں جمہوریت کو پٹری سے اتار کر پاکستان کو کونسی ترقی کی راہوں پر گامزن کردیا گیا  جو اب ایک بار پھر مڈٹرم انتخابات یا وزیراعظم کو گھر بھیجنے کیلئے سر توڑ کوشش کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اگر سیاسی جماعتیں واقعی پاکستان اور عوام کی بہتری چاہتی ہیں تو اب ٹکراؤ کی پالیسی کو بدلنا ہوگا۔اگر حکومت کہیں غلطیاں کر رہی ہے تو اس کے ساتھ مل بیٹھ کر ایسا راستہ نکالنا ہوگا جس کے باعث ملک میں خوشحالی آسکے۔عمران خان صاحب کو بھی اپنے ارد گرد سے نااہلوں کی فوج کو کم کرنا ہوگا۔پاکستان کو اب کسی نئے سیاسی محاذ کی نہیں بلکہ ملک کی بہتری کیلئے سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے۔یہ کیسی عوامی فکر ہے کہ ٹیکس چوری کیا جاتا ہے؟یہ کیسی ایمانداری ہے کہ ہر کرپٹ ملزم ملک سے بھاگ جاتا ہے آخر کب تک عوام کو لالی پوپ سے بہلایا جائے گا شاباش ہے ان عوام کو کہ وہ اب بھی اپنے قائدین کو نہ سمجھ سکے۔حزب مخالف میں شامل سیاسی جماعتیں اور حکومتی جماعت اگر واقعی عوام سے مخلص ہیں تو ایک ایسا سیاسی اتحاد قائم کیا جائے جس  کا مقصد کرسی نہیں صرف پاکستان کی ترقی ہے اور اگر ایسا اب بھی نہ کیا گیا تو نظام کی تبدیلی ہی انقلاب لاسکتی ہے دیگر تمام اتحاد فضول ثابت ہوں گے۔

مزیدخبریں