وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بیورو کریسی کی کارستانی

گزشتہ سے پیوستہ
 ایک بہت بڑی غلطی کچھ یوں ہے کہ اے ڈی پی بجٹ 2020-21میں فوڈ سیکٹر صفحہ نمبر 45پر گندم کے کنکریٹ سائیلوز (Silos)  بمقام مانہ احمدانی ڈیرہ غازی خان کے منصوبہ کی تکمیل کا ذکر گذشتہ بجٹ 2019-20 میں قابل فخر انداز میں بیان کیا گیا ہے جو کہ سراسر غلط بیانی ہے کیو نکہ یہ منصوبہ چار سال قبل مکمل ہو چکا تھا ۔ بے شک کنکریٹ سائیلوز کا یہ میگا منصوبہ اگر کرپشن کی بھینٹ نہ چڑھتا تو واقعی ہی ضلع ڈیرہ غازیخان میں محکمہ فوڈ کا ایک شاندار اور میگا منصوبہ ہوتا۔ عبدا للہ خان سنبل کی بجٹ ٹیم کی اصلاح کے لیے عرض ہے کہ یہ منصوبہ پی ٹی آئی کے تینوں بجٹ 2018-19، 2019-20اور 2020-21کے اے ڈی پی میں نہ ہی جاری سکیم اور نہ ہی نئی سکیم میں کہیں شامل ہے ۔ یہ میگا منصوبہ سابقہ نون لیگی حکومت کے مالی سال 2012-13 کا تھا اور پی ٹی آئی کی حکومت سے قبل ہی نون لیگی حکومت کے افسران بالا و مقامی نے اِس منصوبہ کواپنی اپنی کرپشن کی بناپر تباہ و برباد کر دیا ہے۔ محکمہ بلڈ نگ ڈیرہ غازی خان کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے محکمہ فوڈ پنجاب ڈیرہ غازی خان کی30ہزار میٹرک ٹن گندم کومحفوظ بنانے کے لیے 2012میں مانہ احمدانی میں تقریباً 33کینال زمین رقبہ پر 8عدد کنکریٹ سائیلوز بنانے کے منصوبہ کابنایا ۔ 29مئی 2012کو PDWPمیںاِس کی منظوری دی گئی۔ اِس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ لاگت 278.938ملین روپے تھا۔اِس منصوبے کا آغاز مورخہ 22نومبر 2012اوراختتام ایک سال کی مدت میں مورخہ 21نومبر 2013تک ہونا تھا۔ مگر صد افسوس اِس منصوبے کو مال ِمفت دل ِبے رحم سمجھ کرکرپشن کی جہنم میں پھینک دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سات سال بیت جانے کے باجودآج تک یہ منصوبہ فعال ہی نہیں ہو سکا۔ 13جون 2016سے محکمہ بلڈنگ اِس منصوبے کی تکمیل کا دعوی کر رہا ہے مگر محکمہ فوڈ پنجاب نے ناقص تعمیر اور دیگر خامیوں کی بناپر اِس منصوبہ کو اپنی تحویل میںلینے سے انکار کر دیا ۔ جبکہ دوسری جانب اِس منصوبے پر سرکاری خزانے سے 2012-13 تا2015-16تک PC-IVکے مطابق 329.060ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اِس میگامنصوبہ کی کرپشن کہانی میں محکمہ بلڈنگ اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کے اعلی افسران براہ راست ملوث ہیں۔ بظاہر اِس میگا پروجیکٹ کے لیے MS/NESPAKکو بطور Supervisory Consultant لیا گیا مگراِس منصوبے کی کرپشن کاآغازاُس وقت ہوا جب اِس کا ورک آڈر ایک ایسے سرکاری ٹھیکہ دار کو دیا گیا جو کہ عام تعمیراتی مستری مزدور کے تجربہ کا حامل تھا۔ حالانکہ یہ منصوبہ ٹیکنیکل الیکٹرو میکینکل نوعیت کا تھا۔UETلاہور کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد نے 2016میں اِ س منصوبہ کی140صفحات پر مشتمل ایک انسپکشن رپورٹ تحریر کی ہے جس میں تمام ناقص تعمیر و غیر معیاری الیکٹرو میکینکل آلات کا تفصیلی احوال موجود ہے۔ اگر یہ منصوبہ کرپشن کی نذر نہ ہوتا تو گذشتہ چھ سالوں سے ہر سال 30ہزار میٹرک ٹن گندم جدید طریقے سے محفوظ ہو رہی ہوتی اور قومی خزانے سے خرچ شدہ 329ملین روپے کا ضیاع بھی نہ  ہوتا۔ بجٹ ٹیم نے اِس منصوبہ کی تکمیل سردار عثمان خان بزدار کے کھاتہ میں ڈال کر اُن کی نیک نامی نہیں کی ۔ یقینی طور پر سردار عثمان خان بزدار اِس تمام صورت حال سے بے خبر ہیں۔ ورنہ کرپشن زدہ میگا منصوبے کا کریڈٹ حکومت پنجاب کبھی بھی نہ لیتی۔ سردار عثمان خان بزدار کو بجٹ ٹیم کی سرزنش کر نی چاہیے اور اپنے ضلع ڈیرہ غازیخان کے اِس کرپشن زدہ منصوبے کی تحقیقات کے لیے قومی احتساب بیورو کو باقاعدہ لیٹر جاری کرنا چاہیے تاکہ سرکاری رقم کے اِس ضیاع کے قصورواران کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ورنہ نیب کا ایک اور کیس اُن کے کھاتہ میںڈال دیا جائے گا۔    

ای پیپر دی نیشن