اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر کی زیر صدرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایف بی آر کے 2012ئ، 2103ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ سینٹ ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملہ کا جائزہ لیتے ہوئے کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر کے نہ آنے پر برہمی کا اظہار کیا اور احتجاج کے طور پرآڈٹ اعتراضات پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے پی اے سی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔کمیٹی کی رکن منزہ حسن نے کہا کہ ایف بی آر کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہے، کوئی کام نہیں کر رہا۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ ایف بی آر نے 1307 اداروں سے ورکر ویلفیئر فنڈ نہیں لیا۔ ایف بی آر کی ممبر اکائونٹنگ نے کہا کہ یہ پیرا سسٹم کو دیکھ کر بنایا گیا تھا مجموعی طور پر 1307 کیسز تھے۔ کمیٹی کے رکن کا کہنا تھا کہ اس وقت 38 کیسز رہ گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیس ٹو کیس دیکھ رہے ہیں۔ کمیٹی نے معاملہ کو ایک ماہ میں حل کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ چئیرمین ایف بی آر نے وزیراعظم کے ساتھ اجلاس میں جانا تھا۔ اس بناء پر ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ مؤخر کر دیا گیا۔ کمیٹی کے ارکان کا مؤقف تھا کہ اگر آج پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر کے بغیر اعتراضات کا جائزہ لیا تو روایت بن جائے گی۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ڈی اے سی کے اجلاس نہیں ہوتے، سب بوجھ کمیٹی پر ڈالا جا رہا ہے۔ بیوروکریسی نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ جان بوجھ کر ایسا کرتے کہ ان کو دو سال ٹرخائو، پھر کمیٹی ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ الیکشن آ جائیں گے۔ راجہ ریاض نے کہا کہ ایک محکمہ ایسا تھا جس نے 19 ماہ ڈی اے سی نہیں کرائی نور عالم خان نے کہا کہ محکمے ڈی اے سی وقت پر اجلاس منقعد نہیں کرتے ہم بیٹھنے کو تیار ہیں مگر آفیسر سنجیدہ نہیں ہیں۔ چیئرمین راناتنویر حسین نے کہا کہ پرانے آڈٹ اعتراضات کو کسی طرح ڈسپوز آف کر دیں۔ ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ ہماری کارکردگی حوصلہ افزاء ہے۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر نہیں آئے ہم کیوں پیرا دیکھ رہے ہیں۔