80کی دہائی کے آغاز میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور دنیا میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ اس وقت روس بھی ایک سپر پاور تھا اور آدھی دنیا روس جبکہ باقی امریکہ کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی۔ روس کے اس حملے کا مقصد جہاں افغانستان پر قبضہ تھا ، وہیں ممکنہ طور پر اس کا اگلا نشانہ پاکستان تھا۔ ان خطرات کو بھانپتے ہوئے اس وقت کی قیادت نے یہی بہتر سمجھا کے روس کو افغانستان میں ہی روکا جائے اور اسے اپنی سرحد تک نہ آنے دیا جائے۔ امریکہ نے بھی روس کو نیچا دکھانے کیلئے اس جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ شمولیت براہ راست نہیں تھی، بس امریکی سی آئی اے اور حکومت نے مل کر پاکستان اور افغان مجاہدین کی مدد کی اور روس کی خطرناک ارادوں کو ملیہ میٹ کیا۔ جہاں روس کی طاقت کو شدید دھچکا لگا وہیں امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا ، مگر اسکے بعد افغانستان کو پاکستان کے حوالے کر کے خود سب ہی یہاں سے نکل لئے۔ پاکستان جس کی اپنی معاشی حالت اتنی بہتر نا تھی، وہ افغانستان کا بوجھ کیسے اُٹھاتا۔ اسی اثناء میں چین نے سر اٹھانا شروع کر دیا جو امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں تھا، اور پھر یہ بھی ایک تھیوری مانی جاتی ہے کہ امریکہ چین کے قریب آنا چاہتا تھا تا کہ اسکی گردن مروڑ سکے، اور اس دفعہ اسے افغانستان میں پہنچنے تک اس کا ساتھ پاکستان نے دیا ، مگر چونکہ ماضی میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مختلف مواقع پر جو ہاتھ کئے تھے اس سے ایک بات تو سمجھ میں آ چکی تھی کہ امریکہ کسی کا سگا نہیں ہے، سو اس دفعہ پاکستان نے امریکہ کو بھرپور وسائل فراہم کئے اور ہر مکمل معاونت فراہم کی افغانستان پہنچنے میں۔ امریکہ جو کہ درحقیقت چین کے پڑوس میں ایک مضبوط اتحادی فوجی قوت بنانا چاہتا تھا اور خود بھی یہاں موجود رہ کر چین اور اس سے پہلے پاکستان کو بھی زیر کرنے کے ارادے سے آیا۔ مگر وہ ایک بات بھول گیا تھا کہ جس آئی ایس آئی کی مدد سے اس نے روس کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا اب وہ اس قابل ہو چکی تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور سے بھی مقابلہ کر سکے، اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ کیسے پاکستان نے امریکہ کو افغانستان میں بٹھا کر پھنسایا، کہ بیس سال سے زائد کے عرصے میں وہ افغانستان کے کچھ مٹھی بھر مجاہدین کو نہ سنبھال سکے۔ افغان جنگ جہاں امریکہ اپنی طاقت کے بل پر آیا، مگر وہ یہ بھول گیا تھا کہ افغانستان کسی طرح بھی ایک سیدھا میدان جنگ نہیں ہے، اور بلا شبہ تاریخ میں بھی یہی لکھا جائے گا کہ یہ جنگ فوجوں اور ہتھیاروں سے زیادہ خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر مشتمل تھی، اور بلاشبہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے دنیا بھر کی ایجنسیوں کو جو افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنائے بیٹھیں تھیں ، سب کو ناکوں چنے چبوائے۔ بہر حال ، اس سارے وقت میں جہاں بہت سارے برادر ملک کے جن کی خاطر ہم اپنی آن، بان، شان حتیٰ کے جان بھی قربان کرنے کے دم پر ہوتے ہیں سب نے ہی کسی نا کسی طرح اپنی پیٹ دکھا دی مگر صرف چین ہی ایک واحد دوست ملک تھا جو ہر مشکل میں ہمیشہ پاکستان کیساتھ کھڑا رہا، اور یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی اس دوستی کے رشتے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اس جنگ میں جہاں چین نے پاکستان کی اقتصادی و معاشی لخاظ سے مدد کی اور پاکستان کو ہمیشہ کندھا دیا وہیں آئی ایس آئی کے جال میں امریکہ ایسا پھنسا کہ بیس سال وہ صرف اسی جال کی گرہیں کھولتا رہ گیا۔ اس سب کا فائدہ بلاشبہ چین نے بھرپور طریقے سے اُٹھایا اور ان دو دہائیوں میں ہر لخاظ سے ترقی کی نئی منزلیں طے کیں اور جہاں وہ دنیا کی بڑی معاشی قوت بن گیا وہیں اس نے اپنی فوج کو بھی امریکہ کے ہم پلہ بنا لیا۔ آج امریکہ کے بعد چین دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کے پاس اپنا سٹیلتھ جنگی طیارہ ہے۔اسکے علاوہ اب چین خود کو جنوبی سمندروں میں اتنا مستحکم کر چکا ہے کہ امریکہ بھی اسے کھلے عام للکارنے کی جرأت نہیں کریگا۔آگے آنیوالوں دنو ںمیں دنیا کہ حالات کے بہت تیزی سے بدلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ، امریکہ جہاں چین کی جنوبی سمندورں میں موجودگی سے خوف زدہ ہے وہیں وہ ممکنہ طور پر پیچھے رہتے ہوئے بھارت کو قربانی کا بکرا بنا کر پیش کرے ، مگر یہ دنیا کے امن کیلئے ایک بہت سنگین غلطی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ نا تو پاکستان اب کسی بھی ایسے ’’مس ایڈوینچر ‘‘ کے جواب میں خاموش بیٹھے گا اور نہ ہی چین بھارت کو ایسی کسی غلطی پر معافی دے گا۔ بھارت میں اگلے سال جہاں نئے صدر کا چنائو ہو گا وہیں آٹھ ریاستوں میں بھی انتخابات منعقد ہونگے۔ مودی سرکار جو افغانستان میں بری طرح پِٹ چکی ہے اور ملک میں اندرونی صورتحال بھی کسی صورت اچھی نہیں، جب لوگ کرونا سے مر رہے ہیں تو جھوٹا بھارتی میڈیا انہیں بھارت اور دیگر ممالک کی افغانستان میں ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا کر ایک نئی جنگ کی تیاری میں جُتا ہوا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو پوری دنیا کو باور کرانا ہو گا اور بتانا ہو گا کہ کیسے اشرف غنی نے بہت سارے دہشت گردوں کو اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں رہا کیا اور ممکنہ طور پر کچھ قید ی طالبان کو افغانستان سے بھارت منتقل کیا گیا، جن کو بھارت پھر کسی جھوٹے دہشت گردی کے ڈرامے میں استعمال کر سکتا ہے ۔ ہمیں پوری دنیا کو پہلے سے اس خطرے کے بارے میں آگاہ کرنا ہو گا۔ باقی ہمیں یقین ہے اپنی حکومت، عسکری اداروں اور خصوصاً پاکستان کی پہلی دفاعی لائن آئی ایس آئی پر کہ وہ ہر ممکنہ خطرے کا جم کا سامنا کریں گے اور پورا ملک ا ن کے ساتھ ہے۔