’’نکاح‘‘ نسل انسانی کی بقاء کیلئے ایک مضبوط ’’شرعی کنٹریکٹ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ’’قوام‘‘ یعنی مرد پر عورت کے لیے حق مہر، نان و نفقہ، ترجیحی بنیادوں پر دیگر ضروریاتِ زندگی کا خیال رکھنا جبکہ عورت کیلئے پاکدامن، کفایت شعاری اور شوہر کی فرمانبرداری کی کسوٹی پر معاملات کو رکھا گیا ہے۔ یہ ایسا بندھن ہے جس کا آغاز اکثر و بیشتر مسرتوں، نیک تمناؤں سے ہوتا ہے تو پھر آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ ایک ساتھ جینے، مرنے کی قسمیں کھانے والے، ’’میری لائف میری وائف‘‘اور ’’مائی ہبی مائی ہارٹ‘‘ کہنے والے ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہتے۔! ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں طلاقوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ برائی کسی بپھرے گھوڑے کی طرح بے لگام ہو چکی ہے۔
بنیادی وجہ رشتہء زوجین کی ذمہ داریاں نبھانے میں کوتاہی برتنا ہے جب رشتوں میں دراڑیں آتی ہیں تو پھر دو خاندانوں کا شیرازہ طلاق کی صورت میں بکھرجاتا ہے، بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑے، کورٹ کچہریوں کے چکر بچوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ طلاق کی عمومی اور پہلی وجہ تعلیم و شعور کا نہ ہونااور غلط تربیت ہے۔ دوسری بڑی وجہ عدم برداشت کا مرض ہے جو من حیث القوم ہم میں سرایت کر چکا ہے۔ میاں بیوی جیسے نفیس رشتے میں برداشت کا عنصر لازم و ملزوم ہونا چاہیے۔ اگر دونوں ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں کرینگے، درگُزر کی روش کو فراموش کر دینگے تو رشتے کبھی استوار نہیں رہ سکتے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ معمولی سی بات پر شوہر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور وہ غصے میں اپنی زوجہ کو طلاق کے کاغذات اس برق رفتاری سے بھجواتا ہے کہ مصالحت کا کوئی پہلو ہی نہیں بچتا اور بعد میں پوری زندگی پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دوسری جانب بعض خواتین بھی معمولی باتوں سے دلبرداشتہ ہوتے ہوئے خلع جیسا جذباتی فیصلہ کر لیتی ہیں اور اپنے والدین اور بھائیوں کیلئے معاشی چیلنج کو اور ٹف بنادیتی ہیں اور بلاجواز خلع کی وجہ سے واپسی کا بھی کوئی راستہ نہیں رہتا یوں ڈیپریشن میں مبتلا ہوتے ہوئے سخت کرب میں زندگی گزارتی ہیں۔ یہ جملہ مشہور زمانہ ہے کہ ’’پاکستانی معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے‘‘… اسی لیے زیادہ تر مرد کسی خاتون کو خود کے ہم پلہ تسلیم کرنے پر برملا آمادگی کا اظہار نہیں کرتے۔
سوچ اور مزاج کے ٹکراؤ کے باعث بھی ملازمت پیشہ خواتین کو ازدواجی معاملات کو ہینڈل کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ملازمت پیشہ شوہر اور بیوی زیادہ مصروفیات کے سبب ایک دوسرے کو ٹائم نہیں دیتے مثلاً جاب سے فراغت کے بعد بھی اگر شوہر موبائل کو زیادہ وقت دیتا ہے اور بیوی میگزین پڑھے یا ٹی وی سیریل پر توجہ دے تو ایسے میں دوریاں ہی بڑھیں گی۔ یہی دوریاں مودت سے بھرپور رشتوں میں رخنہ ڈال دیتی ہیں اور نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔
طلاق کی ایک اور بڑی بنیادی وجہ شک ہے۔ شک اور اعتماد ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ذرا سوچئے ! ایک لڑکی جو اپنا گھر بار، والدین، بہن بھائی، بچپن کی سہیلیاں ان سب کو چھوڑ کر ایک اجنبی مرد کے پاس جب آتی ہے تو اسکی ڈھارس بندھانے کیلئے اس کا شوہر ہی سب کچھ ہوتا ہے اور جب مرد اسے شک کی نظروں دیکھے، الزام تراشیاں کرے،کردار پر انگلی اٹھائے تو صنف نازک ادھر ہی کرچی کرچی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا بلاثبوت کردار کشی نہ کی جائے ورنہ شریعت کے مطابق لعان کی سزا بھی بھگتنی پڑیگی۔ بیوی کو بھی چاہیے کہ شوہر کے آفس میں زیادہ دیر کام کرنے کو افسانوی رنگ دینے کی کوشش نہ کرے، ہر وقت مسٹر کھوجی نہ بنے۔ موبائل فون کی گھنٹی بجنے پر بلاوجہ کان کھڑے نہ کرے بلکہ موجودہ مہنگائی کے بدتر حالات کی نبض شناسی کرتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھائے اپنے شوہرکو تسلی دے۔ مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ ہمارے ہاں رائج جوائنٹ فیملی سسٹم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بلاشبہ مشترکہ خاندانی نظام کے بیش بہا فوائد ہیں مگر کئی جوڑوں میں دوریاں بھی انہی کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ خارجی رشتوں کا حد سے زیادہ زوجین کے معاملات میں مداخلت کرنا، ٹانگ اڑانا بھی نزاعات کی آتش میں تیل کا کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بیٹا شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر لیکر دینا چاہے تو اسے ’’زن مرید‘‘ کے ٹائٹل سے نوازا جاتا ہے۔ اگر بیوی کی فرمائش پر کچھ کھانا، جوتی، کپڑا لے بھی آئے تو اتنے بڑے خاندان کی نظروں سے بچاتے ہوئے اسے بیوی تک پہنچانا گویا کے-ٹو سر کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ دوسری جانب چند گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کو سسرال میں رہنے کا ڈھنگ اور تحمل سکھانے کی بجائے بات کا بتنگڑ بنانے سے متعلق ٹریننگ دیتے ہیں۔ غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں کہ ساس کبھی ماں نہیں ہوتی، جیٹھانی کے ساتھ کبھی دل کی بات شیئر نہ کرنا،شوہر کو مٹھی میں لیکر گھر و جائیداد اپنے نام کروا لینا وغیرہ وغیرہ۔ قارئین! گھریلو ناچاکی کہاں نہیں ہوتی؟ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قوت برداشت پیدا کریں، رشتوں میں انا کو آڑے نہ آنے دیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو مسکرا کر نظرانداز کریں اور خوبصورت مستقبل کو ویلکم کریں۔