معزز قارئین ! سوموار (20 ستمبر )کو سپریم کورٹ کے فاضل جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے جسٹس سیّد منصور علی شاہ صاحب اور جسٹس محمد علی مظہر صاحب پر مشتمل تین رُکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے کہا کہ’’ وفاقی حکومت سے انگریزیؔ کے بجائے اُردوؔ زبان کو سرکاری طور پر رائج نہ کرنے پر اور حکومت پنجاب سے پنجابیؔ زبان نہ نافذ کرنے پر جواب طلب کرلِیا گیا ہے!‘‘ ۔ دراصل سینئر ایڈووکیٹ کوکب اقبال صاحب کی طرف سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرتے ہُوئے وفاقی حکومت سے جواب طلب کِیا گیا ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے کہا کہ ’’ سپریم کورٹ نے 2015ء میں اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دِیا لیکن فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہُوا!‘‘
فاضل جج صاحب سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’ آئین پاکستان کے "Article" 251 میں ’’قومی زبان‘‘ (National Language) کے ساتھ علاقائی زبانوں (Regional Languages) کا بھی ذکر ہے اِس لئے ہم نے صوبہ پنجاب میں پنجابیؔ زبان کے نفاذ نہ کرنے پر حکومت ِ پنجاب سے بھی جواب طلب کر لِیا ہے! ‘‘ جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ مادرِی زبانوں (Mother Languages) اور قومی زبان (National Language) کے بغیر ہم اپنی شناخت (Identity) کھو دیں گے !‘‘۔ انتہائی متانت ، سنجیدگی اور بزرگانہ انداز میں فاضل جج صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ ہمیں فارسی اور عربی زبانوں کو بھی سیکھنا چاہیے !‘‘ ۔
’’ فرمانِ قائداعظمؒ ! ‘‘
11 ستمبر 1948ء کو وِصالِ سے پہلے ’’بابائے قوم ‘‘ حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح ؒ نے اردو ؔزبان کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے حکم جاری فرمایا کہ’’15سال کے اندر اندر اردو کو ہر شعبۂ زندگی میں انگریزی کی جگہ نافذ کیا جائے!‘‘ آپ نے فرمایا کہ کسی بھی قوم کی ترقی و خود مختاری اور اتحاد کے لئے ایک مشترکہ قومی زبان ضروری ہوتی ہے۔ اردو ؔبرصغیر کی واحد زبان ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ! ‘‘۔
معزز قارئین! اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ ’’11 ستمبر 1948ء کو بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ خالق حقیقی سے جا ملے ! ‘‘۔ پھر آپؒ کے فرمان کے مطابق 1958ء سے1969ء تک فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کو کیا ضرورت تھی کہ ’’ وہ قومی زبان اردو کو سرکاری درجہ دینے کا حکم جاری کردیتے ؟ ‘‘۔
’’عاشقِ رسولؐ علاّمہ اقبال! ‘‘
عاشق رسولؐ مولا علیؓ کے حوالے سے مولائی کہلانے والے مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ کی مادری زبان پنجابیؔ تھی لیکن آپؒ اردوؔ ، عربیؔ ، فارسیؔ ، ہندی ؔ سنسکرت ، انگریزی ؔ ، جرمن ؔ اور کئی دوسری زبانوں ؔکے ماہر تھے ۔ علاّمہ اقبالؒ کے فارسی ؔ اور اردوؔ کلام نے عالم اسلام کا ایمان تازہ کردِیا تھا ۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’ مَیں جو اردوؔ لکھتا ہُوں وہ میری تہذیب ( روایات ، اخلاق، تمدن اور ثقافت) کی نمائندگی کرتی ہے ! ‘‘ معزز قارئین ! یہی وجہ ہے کہ ’’ علاّمہ اقبالؒ اور اُن سے پہلے خواجہ غریب نواز نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتی ؒ سے پہلے اور بعد جو اولیائے کرامؒ برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اُن کی مادری زبان فارسی تھی اور وہ عربی زبان کے ماہرین تھے ۔ خواجہ غریب نوازؒ ۔ 587 ھ( 1191ئ) میں لاہور تشریف لائے پھر حضرت سیّد علی ہجویری ؒ کے دربار میں قیام کِیا۔کچھ عرصہ مزارِ داتا صاحبؒ پر چلّہ کشی کی اور با مُراد ہو کر خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ …
’’گنج بخش ؒ ، فیض عالم، مظہر نُور خُدا!
ناقصاںرا پِیر کامِل، کاملاں را ،راہنما!‘ ‘
… O …
یعنی ’’ (حضرت داتا صاحبؒ ) خزانے بخشنے والے ، تمام مخلوقات و موجودات کو بہت زیادہ فائدہ پہنچانے والے ، خُدا کا نُور ظاہر کرنے والے ، نامکمل لوگوں کے لئے کامل پِیر اور کامل (پیروں کے لئے ) راہنما (راستہ دِکھانے والے ) ہیں ‘‘۔
’’ مختلف زبانیں سیکھنے کا عمل ! ‘‘
حضرت داتا صاحب ؒکے مزار ِ اقدس پر چلّہ کشی کے بعد ( اجمیر شریف تشریف لے جانے سے پہلے ) حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے ،اپنے مُرید ِ خاص ( جو بعد میں آپ ؒ کے خلیفہ بھی بنے ) حضرت قُطب اُلدّین بختیار کاکیؒ اور کئی دوسرے مُریدوں کو ساتھ لے کر چار پانچ سال تک ملتان بھی قیام کِیا تھا ۔ جہاں آپؒ نے اور آپؒ کے مُریدوں نے نامور عُلماء سے ہندی ؔ ، ملتانی (سرائیکی ) پنجابی اور کئی دوسری علاقائی زبانیں سیکھیں پھر اُنہی زبانوں کی مہارت کے باعث آپؒ کوہندوستان میں تبلیغ اسلام میں بہت سہولت رہی!‘‘۔
’’کالم میں للکار‘‘
معزز قارئین ! (اُن دِنوں ) ’’ قائداعظم ثانی ‘‘ کہلانے والے میاں نواز شریف وزیراعظم تھے کہ جب’’ 20 جولائی 2014ء کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف اور انسانی حقوق نے قومی زبان اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دلانے اور انگریزی زبان کو قوم زبان تسلیم کروانے کی قرارداد مسترد کردِی تھی۔ ’’ پاکستان قومی زبان تحریک ‘‘ کے ڈاکٹر شریف نظامی اور محترمہ فاطمہ قمر کی فراہم کردہ معلومات کے حوالے سے اُردو اور پنجابی کے معروف شاعر اور روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسیؔ صاحب نے 22 جولائی کو ’’اُردو کو علاقائی زبان بنانے کی سازش‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم ’’ بیٹھک‘‘ میں اِسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی رُکن قومی اسمبلی ماروی میمن کی گھنائونی سازش اور شرانگیزی قرار دِیا تھا۔
’’ دامادِ نواز شریف وغیرہ ! ‘‘
انہوں نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ کیپٹن(ر) محمد صفدر اور قراردادپر دستخط کرنے والے دوسرے ارکانِ اسمبلی، مخدوم خُسرو بختیار، قیصر احمد شیخ، بیگم طاہرہ بخاری، شہاب اُلدّین خان،داکٹر عباد اللہ، سیّد علی حسن گیلانی، مسز کِرن حیدر اور خالد حسن مگسی ’’شریک ِجُرم‘‘ ہیں !‘‘ ۔
’’ ماروی میمن اور گیسُوئے اُردو !‘‘
اِس پر 24 جولائی 2014ء کو ’’ ماری میمن اور گیسُوئے اُردو!‘‘ کے عنوان سے مَیں نے بھی ’’ نوائے وقت ‘‘ میں ماروی میمن صاحبہ کو مخاطب کر کے فارسی اور اُردو کے نامور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب ؔ کے نام علاّمہ اقبالؒ کی نظم کا یہ شعر لکھا تھا کہ …
’’ گیسُوئے اُردو ابھی ، منّت پذیرِ شانہ ہے!
شمع یہ ، سودائیِ دِل سوزی ٔ پروانہ ہے !‘‘
یعنی’’ اُردو زبان کی زُلفیں ابھی کنگھی کی محتاج ہیںاور یہ شمع ۔پروانے کی دِل سوزی پر فدا ہے!‘‘۔(جاری ہے)