اسلام آباد‘ نیویارک (خبر نگار خصوصی‘ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ حالیہ سیلاب نے پاکستان میں بہت تباہی مچائی۔ پاکستان کو سیلاب کی تباہی کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ میں آج یہاں کھڑا ہوں لیکن میرا دل اور دماغ سیلاب زدگان کے ساتھ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے تباہی نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب کر دیا ہے۔ چالیس دن اور 40 راتوں تک ایسا سیلاب آیا جیسا دنیا نے کبھی نہیں دیکھا۔ ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ الفاظ میں بیان نہیں کئے جا سکتے۔ پاکستان کے لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا؟ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہم کس وقت سے گزر رہے ہیں۔ میں یہاں سب کو بتانے آیا ہوں کہ پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے۔ چھ سو 50 عورتوں نے سیلاب میں بچوں کو جنم دیا۔ ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ دس لاکھ گھر جزوی اور 10 لاکھ مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ اس سے پہلے پاکستان میں ایسی تباہی نہیں دیکھی۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے ایسے اثرات پاکستان نے کبھی نہیں دیکھے۔ گلوبل وارمنگ نے پورے خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان اس وقت دنیا کا گرم ترین ملک بن گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تباہی یہاں کے لوگوں کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ عالمی حدت سے خطے میں گلیشیئر پگھلنا شروع ہوئے۔ جو پاکستان میں ہوا ہے وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔ ابتدائی اندازے کے مطابق 4 ملین ایکڑ فصل تباہ ہوئی۔ اس لئے دنیا سے موسمیاتی انصاف کی امید لگانا غلط نہیں ہو گا۔ میرا سوال ہے کہ کیا ہم اس بحران میں اکیلئے رہ جائیں گے جس کے ہم ذمہ دار نہیں۔ سیکرٹری جنرل یو این‘ ان تمام رہنماؤں کا شکریہ جو اس مشکل گھڑی میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمارے پاس فنڈز اور ضروریات کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے جس حد تک ممکن ہے اپنے اخراجات سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے وقف کئے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ جب کیمرے چلے جائیں گے تو ہم اس بحران سے نمٹنے کیلئے اکیلے رہ جائیں گے۔ جس کے ہم ذمہ دار نہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف جاری ہے۔ سیلاب کے باعث 1500 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے متاثرہ خواتین کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ پروگرام سابق وزیراعظم کے نام سے شروع کیا گیا جن کا بیٹا وزیر خارجہ ہے۔ سیکرٹری جنرل نے پاکستان کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین کے ساتھ وقت گزارا۔ ہمیں آج جن مسائل کا سامنا ہے اس کی وجہ ہم نہیں ہیں۔ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات چاہتے ہیں۔ خطے میں مستحکم امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات سے امن عمل متاثر ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قلت کیا جا رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کے غیرقانونی اقدامات واپس لے۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا جنوبی ایشیاء میں امن کا انحصار مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کے حل پر ہے۔ کشمیریوں کیخلاف بھارتی بربریت نے کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑے فوجی علاقہ بنا دیا ہے۔ بھارت مسلم اکثریت والے کشمیر کو ہندو اکثریت میں بدلنے کیلئے غیرقانونی تبدیلیاں کر رہا ہے۔ بھارت کو سمجھنا ہو گا دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں جنگ آپشن نہیں۔ پاکستان خطے میں امن کے عزم پر قائم ہے۔ یو این قراردادوں کے مطابق حق رائے دیہی یقیینی بنانے تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا۔ ہم پڑوسی ہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم امن کے ساتھ رہیں یا جنگ کر کے۔ جنگ کوئی آپشن نہیں صرف پرامن مذاکرات ہی حل ہے۔ میں بھارت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کیلئے تیار ہوں۔ وزیراعظم نے کہا سیلاب متاثرین میں 70 ارب روپے کی رقم تقسیم کی جا رہی ہے۔ پاکستان پرامن افغانستان دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ افغان حکومت کو تنہائی کا شکار کرنے سے مسائل بڑھیں گے۔ کروڑوں افغانیوں کو بغیر کسی معیشت کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے معاملات سے توجہ ہٹا کر 21 ویں صدی کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جنگیں لڑنے کیلئے زمین ہی باقی نہیں رہے گی۔ دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ روکنے کیلئے دنیا کو کام کرنا ہو گا۔ پاکستان 2 دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے‘ 80 ہزار جانوں کی قربانی دی پاکستان کیسا افغانستان چاہتا ہے جو اپنے آپ کے ساتھ دنیا کیلئے بھی پرامن ہو۔ اس وقت افغان حکومت کے ساتھ کشیدگی سے افغان عوام کو نقصان پہنچے گا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بے مثال قربانیاں دیں۔ پاکستان ہر مشکل اور صورت میں دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے۔ افغانستان کے مالی ذخائر کو جاری کرنا افغان معیشت کی بحالی کیلئے انتہائی اہم ہے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہم سرحد پار دہشتگردی کو شکست دینے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم ہمسائے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے‘ آگے بڑھنے کیلئے انتخاب خود کرنا ہو گا۔ افغانستان سے دہشت گرد گروپ پاکستان کیلئے خطرہ ہیں۔ ان تمام دہشت گرد گروپوں سے مستقل طور پر نمٹنا ہو گا۔ عالمی برادری افغانستان کو انسانی ہمدردی کی نظر سے دیکھے۔ ان حالات میں افغانستان کو تنہا چھوڑنا مسائل کو جنم دے گا۔ اسلامو فوبیا ایک عالمی رجحان ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کیخلاف رویوں میں شدت آئی ہے۔ سلامتی کونسل میں مزید 11 غیر مستقل ارکان شامل کر کے اس کے اختیارات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سلامتی کونسل میں مزید مستقل ارکان شامل کرنے سے توازن خراب ہو گا بہتر نہیں۔ پاکستان مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کے بارے میں فکرمند ہے۔ فلسطین مسئلہ کا حل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کا آغاز قرآن مجید کی آیات سے کیا۔ شہباز شریف نے سورہ الزمر کی آیت 53 کی تلاوت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا سیلاب سے پاکستان میں زندگی ہمیشہ کیلئے تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک بات بڑی واضح ہے جو ہوا ہم پاکستان میں سٹے نہیں کر سکیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو مزید بتایا کہ اس وقت فوری ضرورت اور وسائل کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے، سوال بڑا سادا ہے کہ کیوں میرے لوگ گوبل وارمنگ کے اثرات کی قیمت ادا کریں؟ ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں ہے، ہمارا کاربن کے اخراج میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کی پوری تعریف ہی آج تبدیل ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کے حل تک کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہمارے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں صرف بے روزگاری اور غربت بڑھی ہے یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے اختلافات اور مسائل پرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کریں اور اپنے کمیاب وسائل کو بچائیں اور وسائل کو مزید اسلحہ خرید کر ضائع نہ کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مزید کہنا تھا کہ پرامن اور خوشحال افغانستان ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے ہمیں ایک اور سول جنگ اور دہشت گردی سے بچنا چاہئے کوئی بھی ہمسایہ ممالک ان ممالک کے مہاجرین کوپناہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ افغانستان کیلئے انسانی اور معاشی امداد کیلئے سیکرٹری جنرل کی 4.2 ارب ڈالر کی اپیل پر مثبت ردعمل دے اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے۔ بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی سنگین انسانی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا ایک عالمی رحجان ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مسلمانوں کے بارے میں شک اور خوف اور ان کے خلاف امتیازی سلوک وبائی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بھارت کے 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف جبر کی سرکاری طور پر سپانسر شدہ مہم اسلام فوبیا کا بدترین مظہر ہے۔ رواں برس کے آغاز میں اسمبلی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے پاکستان کی طرف سے متعارف کرائی گئی ایک تاریخی قرارداد کو منظور کیا جس میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ میری مخلصانہ امید ہے کہ یہ اقوام متحدہ اور رکن ممالک کی طرف سے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فرورغ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کا باعث بنے گا۔ دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد اپنا پانچ روزہ دورہ مکمل کرکے لندن روانہ ہوگئے۔
اسلام آباد‘ نیویارک (خبر نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بھارت اگر ہم سے کشمیر کے معاملے پر بات چیت کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا سیلاب سے پاکستان میں 3کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 لاکھ بچوں کے وبائی امراض سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، یو این سیکرٹری جنرل سمیت دیگر عالمی رہنماؤں سے صورتحال پر بات کی، فوری طور پر ڈونرز کانفرنس کا انتظام کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا امریکی صدر، ترک صدر، فرانسیسی صدر کے متاثرین سے متعلق بیان پر شکر گزار ہیں، دنیا نے جو مدد کی وہ تعریف کے قابل ہے لیکن ہماری ضرورت سے بہت کم ہے، ابتدائی تخمینے کے مطابق سیلاب سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، لوگوں کو دوبارہ بحال کرنے، انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے مزید امداد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگلے دو ماہ میں پاکستان پر قرضوں کی ذمہ داریاں ہیں، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ، یورپی رہنماؤں سے پیرس کلب میں مدد کی بات کی ہے، کہا ہے کہ دنیا کو ہمارے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر معاہدہ کیا ہے۔ بھارت سے تعلقات سے متعلق سوال پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں، بطور پڑوسی ہمیں ہمیشہ ساتھ رہنا ہے، بھارت اگر ہم سے کشمیر کے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان اور بھارت بات چیت کے ذریعے باہمی تنازعات طے کر سکتے ہیں۔ روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ روس کے صدر پیوٹن سے تیل، گیس اور گندم کی خریداری پر بات کی ہے۔ لیکن ابھی کچھ طے نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دنیا کے امیرممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کو قرضوں میں ریلیف دیں کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے بدترین سیلاب سے انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، فصلیں تباہ ہوگئیں، دنیا کو اس صورتحال میں ہماری فوری مدد کرنی چاہئے، پاکستان محض اپنے وسائل سے اس صورتحال کا مقابلہ نہیں کرسکتا، آئندہ دو ماہ کے دوران پاکستان کو قرضوں کی قسطیں ادا کرنی ہیں جبکہ سیلاب سے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق جمعہ کو بلومبرگ کو انٹرویو میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس وقت انہیں اپنے ملک میں ہونا چاہئے تھا کیونکہ پاکستان میں سیلاب سے لاکھوں لوگ متاثر ہیں، انہیں ریلیف کی ضرورت ہے لیکن میں دنیا کو صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے آیا ہوں، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بدترین سیلاب کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں شامل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سیلاب سے 33ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں،400بچوں سمیت 1500 افراد سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں،10 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے جبکہ جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھروں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت عالمی رہنمائوں کو اس صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ پاکستان تنہا اس صورتحال سے نہیں نمٹ سکتا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خود پاکستان کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا اور کہا کہ انہوں نے ایسی تباہی پہلے نہیں دیکھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان، امریکی صدر جو بائیڈن اور فرانس کے صدر ایمانویل میکروں سمیت عالمی رہنمائوں نے اس حوالے سے اقوام متحدہ میں اپنی تقاریر میں بھی اظہارخیال کیا ہے اور زور دیا ہے کہ پاکستان کو اس وقت بڑی مدد کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا نے ہماری جو مدد کی اس پر شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن ہمیں اس سے کہیں زیادہ اور فوری مدد کی ضرورت ہے، لاکھوں بچے بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، کھڑے پانی سے وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، متاثرہ علاقوں میں کمبل ، خوراک بالخصوص بچوں کی غذا کی ضرورت ہے، سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30ارب ڈالر لگایا گیا ہے، ہمیں لوگوں کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے مددکی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے دنیا کے خوشحال ملکوں، آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے اپیل کی کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف دیا جائے کیونکہ آئندہ دو ماہ کے دوران پاکستان پر قرضوں کی ادائیگی کی بھاری ذمہ داری ہے، حال ہی میں آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر معاہدہ ہوا ہے، ہر ماہ بجلی اور پٹرولیم پر ٹیکس لگانا پڑ رہا ہے، پاکستان کیلئے یہ بہت مشکل صورتحال ہے بالخصوص ایسے میں جبکہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کا چیلنج درپیش ہے۔ وزیراعظم نے کہا سردیوں کیلئے گیس کی قلت ہے، ترقی یافتہ اقوام اور ممالک کو ہم سے توقعات وابستہ کرنے کی بجائے موجودہ صورتحال پر ہماری مدد کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا نے ہماری مدد کرنے میں تاخیرکی تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اتحاد، یکجہتی ، مصالحت اور امن کی ضرورت ہے، موجودہ صورتحال ہم سے اخوت اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا تقاضہ کرتی ہے، یہ وقت باہمی اختلافات اور سیاست کا نہیں، انسانیت کی خدمت اورمتاثرین کی مدد کیلئے مل کر کام کرنے کا ہے، سیلاب متاثرین کوکمبل، ادویات، خیموں، خوراک کی ضرورت ہے، ہمیں ذاتی پسند اور ناپسند چھوڑ کرآگے بڑھنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا اس مشکل صورتحال میں ہماری مدد کیلئے آگے آئے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے آج ہم متاثر ہیں تو کل کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس سال اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے گندم بھی درآمد کرنا پڑے گی کیونکہ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی سیلاب کی وجہ سے زیر آب آ گئی ہے۔ ہم روس سے گندم بھی درآمد کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت بات کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کشمیر کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہے جو ایجنڈے میں سرفہرست ہے‘ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم ہمیشہ کے لئے پڑوسی ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے لوگوں کی بھلائی کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے پیش نظر امیر ممالک کو پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف دینے پر غور کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ جمعہ کو ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے بلومبرگ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بنیادی دلیل دی ہے کہ ماحولیاتی تباہی میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے، اس لئے امیر ممالک پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف دینے پر غور کریں۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے میں عالمی برادری کو پاکستان کی مدد کیلئے عملی اقدامات کرنا چاہئیں۔ جمعہ کو اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عالمی رہنمائوں کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔ وزیراعظم نے کہاکہ سیلاب سے ہونے والی تباہی پر عالمی برادری کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا یکجہتی کے اس اظہار کو عملی اقدامات کی شکل دیں تاکہ پاکستان سیلاب سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کے قابل ہو سکے۔
قصوروارنہیں قیمت کیوں دیں : شہباز شریف
Sep 24, 2022