پاکستان(کامرس رپورٹر)صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان کے تمام بیرونی قرضوں کو نرم شرائط پر فوری طور پر ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت ہے؛ کیونکہ پاکستان میں تا ریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی وجہ سے ہونے والے مجموعی اقتصادی نقصانات 30ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ 220 ملین کی آبادی ہونے اور عالمی سطح میں کاربن کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ہو نے کے باوجود پاکستان نے گلوبل وارمنگ کی سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے۔ اب یہ بین الاقوامی برادری کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حرکت میں آئے اور بغیر کسی رکاوٹ و تعطل کے امدادی سرگرمیوں میں فوری طور پر بڑے پیمانے پر شامل ہو کر نقصانات کے ازالے میں اپنے فرائض ادا کرے۔عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ کل تین کروڑ تیس لاکھ سیلاب متاثرین اور اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد (IDPs) میں سے تقریبا اٹھائیس لاکھ افراد مختلف گھمبیر وبائی امراض کی وجہ سے شدید بیمار ہیں؛ جن میں ڈینگی، ملیریا، ہیضہ، ٹائیفائیڈ، گیسٹرو، سنجیدہ نو عیت کے اسکن انفکیشن اور دیگرپانی سے پیدا ہونے والی اور متعدی سنگین بیماریاں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عالمی برا دری مرنے والوں کی فریاد نہیں سنتی توان ہلاکتو ں کی ذمہ دار پو ری دنیا ہوگی؛ کیونکہ پاکستان کو پوری دنیا کی طرف سے کی گئی ما حولیاتی آلودگی کے نقصانات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔صدرایف پی سی سی آئی نے تجویز دی ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں کی تنظیم نو کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک،ایشین ڈویلپمنٹ بینک،اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب اور دوست ممالک کے ساتھ مذاکرات کرے تاکہ سیلاب سے نجات اور تعمیر نو کی سرگرمیوں کے لیے مالیاتی گنجائش پیدا کی جا سکے۔ انہوں نے ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے مختلف قرض د ینے والے اداروں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے لیے حکمت عملی بنانے میں اپنی مشاورتی خدمات کو بھی پیش کیا ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے ہر حکومتی سطح پر کفایت شعاری کے اقدامات اپنانے اور تمام غیر ترقیاتی بجٹ کو ریلیف اور بحالی کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے؛خواہ وہ صوبائی اخراجات ہوں یا وفاقی۔ انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ دنیا امداد اور قرضوں میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے تیار ہو گی؛ بشرطیکہ، ہم امداد اور بحالی کے لیے تفصیلی، پر اثر اور عملی منصوبہ تیار کریں اور امدادی وسائل کی موثر، منصفانہ اور شفاف تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔