کراچی (کامرس رپورٹر )کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس نے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی کی بے قدری اور اب تک کی بدترین مہنگائی کے اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غیر حل شدہ معاشی مسائل نے پاکستان کے مستقبل کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے اور ملک ناقابل واپسی دوراہے پر پہنچ چکا ہے لہٰذا اعلیٰ حکام کو قومی ترجیحات کواہمیت دیتے ہوئے بیمار معیشت کو زیادہ پائیدار طریقے سے ٹھیک کرنا ہوگا۔ایک بیان میں کے سی سی آئی کے صدر نے نشاندہی کی کہ جنوری 2022 سے پاکستانی روپیا امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا تقریباً 35 فیصد کھو چکا ہے جو یکم جنوری کو 178.50 روپے تھا اور فی الوقت240 روپے سے اوپر ہے جو معیشت کی انتہائی خوفناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے نیزکاروبار کرنے کی زائد لاگت اور مہنگائی صنعتی کارکردگی پر تباہ کن اثرات کا باعث بنیںگے۔انہوں نے کہا کہ صنعتوں اور عوام کے لیے مصائب اور مشکلات اس وقت مزید بڑھ جاتی ہیں جب انہیں کسی نہ کسی طرح بڑھتے ہوئے ڈالر اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کے اثرات کو برداشت کرناپڑتا ہے۔ کے علاوہ بجلی کے انتہائی زیادہ بل ادا کرنے پڑتے ہیںجو عوام اور صنعتوں دونوںکے لیے مکمل طور پر ناقابل برداشت ہیں اس کی وجہ سے ایس ایم ایزکی ایک بڑی تعداد بند ہو گئی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف اگست ماہ 2022 میں پاکستان میں سال بہ سال سی پی آئی افراط زر 27.3 فیصد دیکھا گیاجو کہ بہت زیادہ ہے جبکہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ یعنی جولائی اور اگست میں 11.06 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات صرف 4.7 ارب ڈالر رہیں تاہم درآمدات میں کمی کے باوجود محصولات کی وصولی میں اضافہ دیکھا گیا۔
لیکن اسے ہر گزایک کامیابی نہیں سمجھا جا سکتا جیسا کہ یہ خالصتاً پاکستانی روپے کی بے قدری کی وجہ سے ہوا۔محمد ادریس نے مزید کہا کہ جولائی 2021 کے مقابلے جولائی 2022 میں درآمدات میں 10 فیصد کمی کے باوجود کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی میں 3 فیصد یا 2 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔لگژری غیر ضروری مشینری (ایچ ایس 84 اور 85) اور خام مال پر پابندی کے اثرات جولائی 2022 کی درآمدات میں واضح طور پر نظر آئے جب ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر 37 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی اور سال بہ سال کی بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ہوئی تاہم اگست 2022 میں پاکستان کی درآمدات میں تقریباً 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو جولائی 2022 کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خام مال اور مشینری پر پابندی لگا کر تجارت میں رکاوٹ ڈالنا ایک تباہ کن مشق ثابت ہوئی جس نے صرف تاجروصنعتکار برادری کے لیے مشکلات پیدا کیںجیسا کہ کے سی سی آئی کو درآمد کنندگان کی طرف سے مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں جن کے کنسائنمنٹس کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے بندرگاہوں سے کلیئرنس کے لیے پیشگی منظوری لینے کی پابندیوں کی وجہ سے کلیئر نہیں کیا اور اس تاخیر کے نتیجے میں اضافی ڈیمریج اور ڈیٹینشن چارجز کی وجہ سے درآمد کنندگان کو بھاری نقصان ہوا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے دالوں اور زرعی اجناس کی درآمدات میں رکاوٹیں ڈالنا ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوگا بالخصوص ایسے حالات میںجب ذراعت کے شعبے کو بارشوں و سیلاب نے مکمل طورپر تباہ کردیا ہو۔ اسٹیٹ بینک کے عملی اقدامات ملکی معیشت کے لئے تباہ کن ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ کاروباری لاگت میں ریکارڈ اضافہ، روزمرہ زندگی کے بڑھتے اخراجات، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، پاکستانی روپے کی مسلسل بے قدر، سیلاب اور ملک میں وبائی امراض کے پھیلنے سے پاکستان کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔