’’جوڑی نمبر ون‘‘ 


بابر اعظم اور محمد رضوان کامیابیوں کی بلندیوں پر 
بابر اعظم اور محمد رضوان ان دنوں جس کھیل کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا جس انداز سے بیٹنگ کر رہے ہیں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ دنیائے کرکٹ میں اس وقت دونوں ہر طرف سے تعریف سمیٹ رہے ہیں، تمام بڑے سابق کرکٹرز اور موجودہ دور میں ان کے ساتھ کھیلنے والے کرکٹرز بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹوینٹی ٹوینٹی میچ میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے 200 رنز کا ہدف بغیر کسی وکٹ کے حاصل کیا یعنی بابر اعظم اور محمد رضوان اس پہاڑ جیسے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے میدان میں اُترے اور انگلش بائولرز کو بے بس کرتے ہوئے فتح حاصل کی۔ یہ کارکردگی اس لیے بھی زیادہ معنی رکھتی ہے کیونکہ دونوں اوپنرز کو خاصی تنقید کا سامنا تھا انہیں اپنے سٹرائیک ریٹ اور نسبتاً سست بیٹنگ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کی صلاحیتوں پر تو کوئی شک نہیں ہے وہ میدان میں آتے ہیں اور اپنی مرضی کے ساتھ رنز بناتے ہیں۔ وہ دنیا کی تمام اچھی ٹیموں اور مختلف میدانوں پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں۔ پہلے میچ میں ناکامی کے بعد کھلاڑی دبائو میں ہونگے لیکن دوسرے میچ میں پاکستان کی افتتاحی جوڑی کی طرف سے اس تاریخی کارکردگی کے بعد اعتماد یقیناً بلند ہوا ہے۔ اس فتح کے بعد قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے بھی ناقدین کو بھرپور انداز میں جواب دیا ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ بابر اعظم کو اس سطح تک پہنچانے میں مکی آرتھر کا بڑا اہم کردار ہے یہ درست ہے کہ مکی آرتھر جب پاکستان ٹیم کے کوچ تھے تو انہوں نے بابر اعظم کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اور بابر کو اپنا کیرئیر بنانے کے لیے بہت اچھے مواقع فراہم کیے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بابر اعظم پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈیویلپمنٹ پروگرام کا حصہ رہے اور وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے پاکستان ٹیم تک پہنچے۔ اس سفر میں بابر اعظم اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر شکیل شیخ کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ پاکستان ٹیم کے کپتان کے مطابق جب انہیں کرکٹ کی ضرورت تھی تو شکیل شیخ نے بہت ساتھ دیا۔ بابر اعظم کی ترقی میں مکی آرتھر کو یاد تو کیا جاتا ہے لیکن محمد رضوان کو انٹرنیشنل کرکٹ میں غیر معمولی طور پر ایک اوپنر کی حیثیت سے متعارف کروانے والے مصباح الحق کو کوئی یاد نہیں کرتا۔ اگر بابر اعظم دنیا کے بہترین کھلاڑی ہیں تو محمد رضوان بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ اس لیے دونوں کی کارکردگی اور اُن کے کیرئیر پر نظر ڈالتے ہوئے مکی آرتھر کے ساتھ ساتھ مصباح الحق کو یاد کرنا بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔ ان دونوں پر ہونے والی تنقید کی ایک وجہ پاکستان ٹیم کا کمزور مڈل آرڈر ہے۔ بابر اور رضوان تو اُس مقام پر پہنچے ہیں کہ اب وہ پاکستان کے لیے مزید کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس ٹیم میں اُن کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے کھلاڑیوں میں فرق نا صرف نظام کے اوپر سوالیہ نشان ہے بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ ٹیم کے کوچنگ سٹاف کی صلاحیتوں کو بھی مشکوک بناتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ابھی تک پاکستان ٹیم کے بیٹنگ آرڈر کے حوالے سے کوئی واضح چیز سامنے نہیں ہے۔ نمبر 3 ، 4 ،5 پر کون بیٹنگ کرے گا اور نمبر 6 ،7 اور 8 پر کون بیٹنگ کے لیے آئے گا اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ، کیوں سلیکشن کمیٹی اور کوچنگ سٹاف اس حوالے سے واضح پالیسی کو ترتیب دینے میں ناکام ہیں۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کے مطابق ’’آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ کپ کے پیش نظر محمد رضوان اور بابر اعظم ہی اوپننگ کے لیے بہترین ہیں۔ کیونکہ آسٹریلیا میں بائونس زیادہ ہوتا ہے اور یہ دونوں کھلاڑی کسی بھی قسم کے حالات میں بہتر کھیل پیش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
بابر اعظم اور محمد رضوان کی انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹوینٹی ٹوینٹی میچ میں بیٹنگ نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے بالخصوص وہ طبقہ جو سمجھتا ہے کہ تیز رنز بنانے کے مار دھاڑ کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔ پاکستان کی اس کامیاب افتتاحی جوڑی کے یہ تاثر اپنے کھیل سے غلط ثابت کیا ہے۔ اگر کسی کھلاڑی کے پاس زیادہ شاٹس موجود ہیں تو اُسے رنز بنانے کے لیے غیر ضروری طور پر گیند کو ہوا میں کھیلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہی وہ سبق ہے جو نوجوان نسل کو پڑھانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاور ہٹنگ کے نام پر بیٹنگ کے جس انداز کی قومی سطح پر پذیر آرائی کی جا رہی ہے وہ نوجوانوں کو بلے بازی کی بنیادی چیزوں سے ہٹانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے جونیئر لیگ کے منصوبے کو بھی اسی لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ کم عمری میں جب بیٹسمینوں کو اپنی بنیاد مضبوط بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت انہیں بڑے شاٹس کی طرف لگانا کھیل کے مفاد میں نہیں۔ بابر اعظم ، محمد رضوان ، ویرات کوہلی، سٹیو سمتھ ، کین ولیمسن، جوروٹ اور موجودہ دور کے تمام دیگر کامیاب اور ورلڈ کلاس بلے باز درست کرکٹ کھیلتے ہیں۔ وہ غیر ضروری طور پر پاور ہٹنگ کے بجائے مضبوط بنیاد پر قائم رہتے ہوئے رنز سکور کرتے ہیں۔
بہرحال سترہ سال بعد انگلینڈ کی پاکستان آمد اور ابتدائی دو میچوں میں عمدہ کرکٹ سے شائقین کے جوش و خروش میں اضافہ ہوا ہے۔ مہمان ٹیم ورلڈ کپ کے پیش نظر مختلف تجربات میں مصروف ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے اس سیریز کو کس انداز میں استعمال کرتا ہے۔ 

حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس

ای پیپر دی نیشن