فہمیدہ کوثر
پاکستان کا بنیادی مسئلہ عوام کی ضروریات زندگی کی فراہمی ہے ریاست اس وقت ڈی اسٹیبلائزڈ ہوجاتی ہے جب لوگ فاقوں مرنے لگیں۔ ہیگل جب زوال پزیر ریاستوں کا احوال لکھتا ہے تو لکھتا ہے کہ جب فرد اور ریاست کے درمیان تعلق صرف اعتماد سے بنتا ہے بظاہر آپ ترقی کا جو مرضی روڈ میپ بنائیں جب تک عوام مطمئین نہیں آپ ترقی کا سفر نہیں کرتے بلکہ تنزلی کی طرف جارہے ہوتے ہیں اسکی مثال اس نادان شخص کی طرح ہے جس کے گھر ایک چھوٹی چارپائی تھی جب بھی کوئی لمبے قد کاشخص آتا وہ اسکی ٹانگیں کاٹ کر اسکا قد پورا کردیتا اور وہ شخص چیخیں مار مار کر مرجاتا عوام بھی چیخیں مار مار کر مر رہے ہیں گزشتہ ایک سال کی مہنگائی نے تو ریاست اور عوام کے درمیان نہ صرف اعتماد کے رشتے کو نہ صرف ختم کیا بلکہ عوام میں خوف بھردیا ہے خدشات بے یقینی انتشار بے یقینی میں اور بے پناہ مسائل میں گھری ریاست کس طرح استحکام کی راہیں ڈھونڈ سکتی ہے کسی زمانے میں کہاجاتا تھا کہ پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو یہ ملک مستقبل میں کینیڈا بن سکتاہے یا لاطینی امریکہ یہ زمانہ بھٹو کا زمانہ تھا جب وہ کہا کرتا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ترقی ضرور کریں چاہے وہ ایٹمی پاور ہو یا معاشی ترقی ہم عجیب قوم ہیں ہم صرف وہ بات رکھتے ہیں جو ہمارے مفاد کی ہو ترقی کو تو ہم نے پس پشت ڈال دیا اور عوام کو گھاس کھانے پر لگادیا اور اب تو ان کے پاس گھاس کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں سوال پھر وہی گھسا پٹا ہے کہ ہم پاکستان کو بنانا ریپبلک بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں جمہوریت کو پنپنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا رہا بار بار فوجی مداخلت کیوں ہوتی رہی عدالتوں کو نظریہ ضرورت کی کیوں بھینٹ چڑھایا جاتا رہا آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا ہے سیاست کے بھنور میں پھنسے اپنی اپنی کشتی کو جائز اور ناجائز طریقے سے کنارے تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں اس کے لئے اگر کسی دوسرے کی کشتی بھی ڈبونی پڑ جائے تو جائز ہے اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو اس میں قصور ان محسنوں کا بھی ہوگا جو اختیارات تو سبھی رکھتے تھے لیکن جواب دہ نہیں تھے مسائل کاحل جمہوریت کی بیخ کنی یی انصاف کی عدم فراہمی اور تشدد میں نہیں بلکہ ہمیں اس پرامن راستے پر چلنا ہوگا جہاں عوام کو آزادانہ سانس لینے اور بنیادی ضروریات کی ارزاں فراہمی تک رسائی ہو اگر تھوڑا سا ماضی میں جھانکا جائے تو برصغیر کے حکمرانوں کے پاس تمام اختیارات تھے لیکن وہ سیاسی استحکام پر توجہ نہ دے سکے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ معمولی سے برطانوی تاجروں سے شکست کھا گئے اس تاریخی حقیقت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جبر تشدد انصاف کافقدان جمہوری ادارے اور سسٹم کافروغ نہ پانا ایسے انتشار کی طرف دھکیلتے ہیں جس کا خمیازہ عوام تو بھگھتتے ہی ہیں ریاست کا استحکام بھی ناممکن ہوجاتا ہے ہم فکری اور اخلاقی بحران کا شکار ہیں ہمیں اسوقت وسیع النظری کی ضرورت ہے مخربی اور ہماری جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ ان کے ہاں اپوزیشن اور حزب اختلاف میں ذہنی ہم آھنگی ہوتی ہے انتخابات میں ہارنے والی پارٹی جیتنے والی کا مسکرا کر استقبال کرتی ہے جب کہ ہمارے ہاں دیوار سے لگانے کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے ہم انتہاو¿ں کی دنیا میں رہتے ہیں ہم نیکوکار ہیں جب کہ دوسرے بدی کا مجسمہ ہیں اور اس سے جو نفرت اور عداوت پھیلتی ہے وہ معاشرتی استحکام کو خس و خاشاک کی طرح بہا کرلے جاتی ہے ریاست کی ناکامی کی ایک وجہ وہ بری گورننس بھی ہوتی ہے جو عوام کو مہنگائی کے دلدل میں دھنسا دے