آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا کہتی ہیں کہ پاکستانی قوم کے نام پیغام ہے کہ وہ امیروں سے زیادہ ٹیکس اکٹھے کریں اور پاکستان کے غریبوں کا تحفظ کریں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پوسٹ میں انہوں نے مزید لکھا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان کے لوگ اپنے ملک کیلئے یہی چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو ہم سب برا بھلا کہتے ہیں اور ہمارے سیاست دانوں نے ہمیشہ آئی ایم ایف سے مدد بلکہ قرض لینے کے بعد انہیں برا بھلا بھی کہا ہے لیکن ان تمام سیاست دانوں یا حکمرانوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ملک کو درپیش مسائل حل کیسے کرنے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض لیتے وقت انہیں برائی نظر نہیں آتی لیکن قرض لینے کے بعد سب یہی کہتے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہیے تھا، ہمیں آئی ایم ایف سے جان چھڑانی چاہیے، ہم ہمیشہ آئی ایم ایف کے سہارے نہیں چل سکتے، آئی ایم ایف نے ہمیں جکڑا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، ہم ملک کے غریب لوگوں کے لیے سہولت پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن آئی ایم ایف کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتے۔ مطلب ایسے کتنے ہی بیانات آپکو سننے کو ملیں گے لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے سیاست دان یا ہمارے حکمرانوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، سب نے اپنے اپنے وقتوں میں ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے، کوئی ایسا نہیں جسے ملکی معیشت کو کمزور کرنے کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے، بالخصوص گذشتہ تیس پینتیس برسوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے یہ کہا جائے کہ اس نے ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر بہتر فیصلے کیے ہیں۔ کسی نے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا، کسی نے معاشی اصلاحات پر توجہ نہیں دی، کسی نے ملکی ایکسپورٹ بڑھانے اور امپورٹ کم کرنے پر توجہ نہیں دی۔ کسی نے ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کام نہیں کیا، ہمارا ٹیکس کا نظام دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کا ملک ہے لیکن ٹیکس نظام کا حال بہت خراب ہے۔ حکمرانوں نے اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا یہ کہنا حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش ہے امیروں سے ٹیکس لو اور غریبوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو لیکن بدقسمتی سے یہاں نظام اس کے برعکس ہے۔ حکمران ہر دور میں امیروں کو قرضے معاف کرنے اور غریبوں سے ٹیکس وصول اور امیروں کو ٹیکس سے بچانے کے طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ ناصرف امیروں کو ٹیکس سے بچایا جاتا ہے بلکہ ان کا بوجھ بھی غریبوں پر لادا جاتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا بیان بھی حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کو سب کے سامنے کھول کر رکھا ہے۔
حکمران طبقہ ہمیشہ سے مالداروں کو بچاتا ہے اور اس کے کئی طریقے ہیں کوئی نگرانی اور احتساب کا نظام نہیں ہے جن سے ٹیکس لینا چاہیے انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور جنہیں سہولت فراہم کرنی ہیں یا آسانیاں پیدا کرنی ہیں ہر طرف سے ان کا سانس بند کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ عام آدمی ہر چیز پر جی ایس ٹی دیتا ہے، عام آدمی بجلی کے بلوں میں بھی ٹیکس دیتا ہے قطع نظر اس کے کہ اس کی آمدن ایسی ہے بھی یا نہیں کہ اس سے ٹیکس لیا جائے یا نہیں لیکن حکومت نے ایسا گندا نظام بنایا ہے کہ بیس ہزار تنخواہ والا بھی بجلی کے بل میں مختلف طرح کے ٹیکس بھرتا ہے اسی طرح مختلف اشیائ کی خریداری پر بھی وہ ٹیکس ادا کرتا ہے، اسی طرح مختلف اداروں میں تنخواہوں پر بھی انکم ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے یوں ایک کسی ادارے میں تنخواہ دار مختلف طریقوں سے ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ مالدار افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ کئی بڑے بڑے اداروں کے مالکان کے
خلاف ایسے ہی مقدمات ہیں کہ وہ اپنے ملازمین کے انکم ٹیکس تو کاٹتے ہیں لیکن ملازمین کی تنخواہوں سے کاٹا جانے والا ٹیکس جمع نہیں کرواتے اور بڑے بڑے اداروں میں یہ رقم اربوں میں ہے جمع کریں تو کھربوں میں ہو جائیں گے۔ اس واردات کا ہر حکومت کرنے والے کو علم ہے لیکن مجال ہے کہ کسی کی جرات ہو کہ ان طاقتور افراد پر ہاتھ ڈالے۔ کوئی یہ جرات کر ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح بڑی بڑی فیکٹریوں میں سے بالخصوص کھانے پینے کی اشیائ کے کاروبار سے منسلک افراد بھی ٹیکس کے معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے اگر وہ ایک لاکھ آئٹمز بیچتے ہیں تو ٹیکس صرف دس ہزار کا ادا کرتے ہیں جب کہ خریدار ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اب لاکھوں کروڑوں آئٹمز بیچنے والوں پر تو کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا وہ اپنا کاروبار بڑھائے چلے جاتے ہیں، لاکھوں، کروڑوں اربوں کماتے ہیں لیکن اس حساب سے ٹیکس ادا نہیں کرتے لیکن ان مالدار اور طاقتور افراد پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ چینی کے کاروبار میں بھی یہی ٹیکس چوری ہوتی ہے چینی کے مہنگا ہونے کی ایک وجہ حکومتوں کی بدانتظامی بھی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں کتنی چینی پیدا ہوتی ہے، پاکستان کی پیداواری استعداد کیا ہے، پاکستان کتنا اہم ملک ہے اگر کسی کو علم نہیں تو وہ ہماری حکومتیں ہیں۔ اتنے برے انداز میں اس نظام کو چلایا جا رہا ہے کہ عام آدمی کو دو سو روپے چینی خریدنا پڑ رہی ہے۔ اس کی جیب پر بوجھ بڑھا ہے لیکن چینی بنانے والی ملوں کے مالکان کو نقصان نہیں ہوا بلکہ وہ تاریخی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ کوئی نگرانی نہیں کوئی احتساب نہیں، کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی پوچھنے والے نہیں۔ اگر نظام بہتر ہو، بےرحمانہ فیصلے ہوں تو چینی بھی ایک سو روپے کلو ہو جائے اور ٹیکس بھی تاریخی اکٹھا ہو لیکن اس کے لیے سیاست داو پر لگانا پڑے گی اور یہ کوئی سیاست دان نہیں کرنا چاہے گا۔ حکمران کوئی بھی ہو اس نے عوامی مفادات سے زیادہ اپنے تعلقات اور سیاسی مستقبل کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہ جو غریب اور امیر میں ہر روز فرق بڑھتا جا رہا ہے اس کی وجہ یہی بوسیدہ نظام اور نااہل حکمران ہیں۔ صرف تین فیصد لوگ ستانوے فیصد لوگوں کی قسمت کے فیصلے کر کے انہیں لوٹ رہے ہیں اور یہ لوٹ مار حکمرانوں کی زیر نگرانی ہو رہی ہے۔ کسی وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ان حکمرانوں کو عام آدمی کا کوئی درد نہیں ہے یہ سب اپنے اپنے کاروبار اور اپنے اپنے سیاسی دوستوں اور سیاسی خرچے اٹھانے والوں کو بچا رہے ہیں۔ قربانیوں کے لیے صرف ووٹرز ہیں وہ قربان ہو رہے تھے، قربان ہو رہے ہیں اور قربان ہوتے رہیں گے۔
آخر میں استاد قمر جلالوی کا کلام
میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل،
اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم،
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
آج آئے ہو تم کل چلے جاو¿ گے،
یہ محبت کو اپنی گوارا نہیں
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو،
دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں
دی صدا دار پر اور کبھی طور پر،
کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں
ٹھوکریں یوں کھلانے سے کیا فائد،
صاف کہہ دو کہ ملنا گوارا نہیں
گلستان کو لہو کی ضرورت پڑی،
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے اہلِ چمن،
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو،
دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
و یقیناً سنیں گے صدائیں میری،
کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹالیجئے ،
میرا ذوقِ نظر آزما لیجئے
آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر،
یا تو نظریں نہیں یا نظارہ نہیں
جانے کسی کی لگن کس کی دھن میں مگن،
ہم کو جاتے ہو مڑ کے دیکھا نہیں
ہم نے آواز پر تم کو آواز دی،
پھر بھی کہتے ہو ہم نے پکارا نہیں