توانائی کے بحران نے ہمیں گھٹنوں کے بل لا کھڑا کیا ہے لیکن اب بھی ہم مطمئن ہیں کہ کچھ نہیں ہوا تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تبا ہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اور ادھر وہ جن کے ساتھ ہمارا کسی نہ کسی شکل میں مقابلہ ہونا چاہئیے تھا اور جو کبھی ہر معاملے میں ہمارا تذکرہ ضروری سمجھتے تھے کہاں پہنچے ہوئے ہیں کہ اب وہ ہمارا ذکر بھی توہین آمیز اندازمیں کرنے لگے ہیں۔ دنیا کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں صرف بر صغیر کے ممالک کو سامنے رکھا جائے تو ضروری ہو جاتا ہے کہ ہماری ساری قیادت اپنے رویوں اپنے انداز فکر اپنے انداز سیاست اور حکمرانی کا جائزہ لے۔اس وقت بظاہر قرضوں کی ادائیگیوں نے سارے مسائل کو جنم دے رکھا ہے اور مختلف قائدین اس کا سبب اپنے اپنے انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ ادائیگیوں کے لئے ٹیکس بڑھائے جا رہے ہیں۔ مہنگائی ہو رہی ہے قسطوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لئے جا رہے ہیں اور عوام ٹیکسوں کی بھرمار سے ادھ موئے ہوچکے ہیں۔اسی پس منظر میں اداروں کے بیچ میں کشمکش رہی ہے۔ جمہوریت کی بحالی ایک سوال بنا ہوا ہے۔ عدالتوں کے کئی فیصلے مذاق بنے رہے ہیں۔چونکہ ذمہ داران ماضی میں باہر جانے اور سیٹ ہونے کا آپشن استعمال کرتے رہے ہیں جو عام آدمی کے پاس نہیں ہے اس لئے ہرطرح کی صورت حال کا خمیازہ صرف عام لوگ بھگتتے رہے ہیں اور اب بھی خواص کو ملک کی کسی بھی طرح کی صورت حال سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ مطمئن رہتے ہیں۔اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے اس وقت کے حکمران بھی اپنے طورپربیانات بھی دے رہے اور کوشش بھی کررہے ہیں لیکن جب تک بنیاد صحیح نہ ہو کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتیں
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
بنیادتمام مسائل کی انرجی ہے۔انجی کی پیداوار کے حوالے سےجن مالک نے بہتر حکت عملی بنائی وہ تمام شعبوں میں کامیاب رہے۔ اب تو سولرانرجی اور دوسرے ذرائع سے توانائی حاصل کرنےکازمانہ ہےلیکن جن دنوں پانی سے بجلی بنانے کے مواقع تھے ہمارے سیاستدانوں نے نےمل کرظلم ڈھائے رکھا۔ کالا باغ ڈیم پرکیا کیا گل نہیں کھلائے گئے۔ نوشہرہ کے ڈوبنے کا ڈرامہ رچایا گیا۔ سندھ اور کے پی کے کے لیڈروں نےملک توڑنےتک کی دھمکیاں دے ڈالیں۔ یوں ایک قدرتی نعمت سے قوم محروم رہی اور لٹیروں نےاس صورت حال سے فائدہ اٹھایا۔ کبھی رینٹل پاور اور کبھی آئی پی پی کے یونٹ اور تیل سے انتہاءمہنگی بجلی سے اس قوم کودیوار سے لگا دیا گیا۔ ایسے میں دنیا کا آئی ایم ایف کا کیا شکوہ۔۔ منیر نیازی کے بقول۔
کچھ شہردے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
اس وقت پوری دنیا میں سولرسے سستی بجلی بنائی جارہی ہے مگر ہمارے ہاں اس ضمن میں کچھ پیشرفت کے باوجود ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔چونکہ آسان زندگی کےلئے بہترکاروبار کےلئے زرعی ترقی کے لئے صنعتی پیداوارکو کم قیمت پر عاملی مارکیٹ کے مقابلے میں لانے کیلئے ابتدا سستی توانائی سے ہوتی ہے توبھارت کی قیادت اس ضمن میں ہم سے زیادہ سوجھ بوجھ والی نکلی ہے۔بھارت میں وفاقی سطح پرسولر انرجی کو پروموٹ کرنےکےلئے بہت سی سہولتیں دی گئیں اوراور ایسا بہت پہلے ہوا۔وفاق میں بی جے پی کی اقلیتوں کے خلاف انتہائی بے رحمانہ پالیسوں پر پردہ انہوں نے اپنے عوام کو دوسرے حوالوں سے مطمئن کرکے ڈالے رکھا ہے۔ سولرکے حوالے سے حکومت کی پالیسی کے باعث بھارت اس قابل ہے کہ نیپال بھوٹان بنگلہ دیش تک کو انرجی کی سپلائی کر رہا ہے۔ دہلی اور بھارتی پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے تووہاں 2019سے پہلے دہلی کے لاکھوں عام لوگوں کو200 یونٹ تک بجلی کا کوئی بل نہیں اور 200 سے اوپر400 یونٹ تک پچاس فی صد رعائت ہے۔اروند کجریوال کی حکومت نے اب ااس پالیسی کو 2024 تک بڑھا دیا ہے۔ سیاسی کھینچا تانی کہاں نہیں ہوتی بی جے پی کی حکومت اگرچہ اس پالیسی سے تنگ ہے لیکن بے بس بھی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں ظاہر ہے بھارت پاکستان سے کم قیمت پراپنی پروڈکٹس پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے توہمیں محض نعرہ بازی اور دہلی پرجھنڈ ا لگانے کے نعرے لگانے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی پالیسوں کو کیسے بہتربنا کرعوام کوریلیف دے سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں سابقہ نگران وزیر اعظم شہباز شریف کے دورمیں سولر پالیسی میں کچھ بہتری سامنے آئی جب نئے بجٹ میں سولر پینلز اوراس سے متعلقہ سامان پر کسٹم ڈیوٹی کوختم کیا گیا لیکن اس پس منظر میں بھی اب ایک میگا سکینڈل سر اٹھانے لگا ہے کہ اس سہولت سے بعض بدعنوان عناصر نے حکومت کوکتنا نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت پنجاب میں زرعی مقاصد کے لئے ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے لئے حکومت لانگ ٹرم قرضے بھی دے رہی ہے اور بظاہر سولر سسٹم کوکامیاب بنانے کی حکمت عملی بھی بروئے کار ہے لیکن دوسری طرف واپڈا انتظامیہ کو یہ فکربھی لاحق ہے کہ سولرکے ذریعے آن گرڈ سولر پرڈکشن کے منصوبوں کی وجہ سے آئی پی پی کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کیسے ہو گی۔ کیا سولر پرڈکشن کو بڑھا کر اس سطح پر نہیں لایا جا سکتا کہ ایک ایک کر کے آئی پی پی سے نجات حاصل کی جائے۔ میرا عملی مشاہدہ ہے کہ واپڈہ حکام گھرو ں کے لئے نجی سطح پر ٹاپ روف سولر تنصیبات کے معاملے میں گو سلو پالیسی اپنائے ہوئے ہیں ایک ہفتے کے کام کو ایک ایک ماہ تک لٹکاتے ہیں۔ گرین میٹر کے حوالے سے پرائیویٹ کمپنیوں سے خریداری پر مجبور کرتے ہیں کہ واپڈا کے پاس ایسے میٹر نہیں ہیں۔ پھرلائن مینوں کے حسابات الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے ملک میں نہیں ہورہا جنہیں ہم کافرمردود کہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے مالی حالات ہم سے کہیں بہترہوگئے ہیں اورہم ابھی تک حکومتوں کے قیام کے حوالے سے تجربات سے گزر رہے ہیں۔حکومت سازی کی بات ہو تو اس ضمن میں بھی اب سچ مچ کے این آر او کی ضرورت ہے۔پرویز مشرف مرحوم کی طرح بدعنوانی کی معافی کے لئے نہیں بلکہ سیاسی محاز آرائی کی بنیاد پر ایکدوسرے کے خلاف مہم اور ایک دوسرے کے خالف مہم کی حد تک۔ اس سلسلے میں کسی کو توکردار ادا کرنا ہوگا تاکہ قوم میں یکجہتی آئے۔ سیاست کی بنیاد پراداروں کی ساکھ کو نقصان نہ ہو۔ ساری قوم کی طاقت ایک مرکز پر جمع ہو۔ تبھی سارے فیصلے بھی اچھے ہوں گے اورقوم بھی سر سکون ہو کر اپنی توانایاں مئبت اندازمیں خرچ کرنے کے قابل ہو سکے گی ورنہ توماضی سے سبق نہ سیکھنے والوں کی ایک تاریخ ہے۔ اللہ نہ کرے ہم اس تاریخ کا حصہ بنیں۔
سولرز۔پریشان عام شہری اور خطے کا تقابلی جائزہ
Sep 24, 2023