نوائے وقت کے بعد سالہا سال ان کا کالم جنگ میں شائع ہوتا رہا اور جنگ کے بعد یہ کالم ایکسپریس کی زینت بنا۔ اپنے دور کے تین بڑے اخبارات میں اس کی اشاعت نے عبدالقادر حسن کے سب سے پہلے سیاسی کالم لکھنے کے ان کے اعزاز کی قدرو وقعت میں اور بھی اضافہ کیا ، اسلام پاکستان اورنظریہ پاکستان عبدالقادر حسن کے محبوب موضوعات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شائستگی اور سنجیدگی سے اظہار خیال کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا جوان کے آخری کالم تک برقرار رہا۔ عبدالقادر حسن سے رشتہ رفاقت قریباً پچاس پچپن برس پر محیط ہے۔ جب ہم نے 1962ء میں روزنامہ وفاق کو لائل پور سے سرگودھا منتقل کیا اور کمپنی باغ کے سامنے نشتر مارکیٹ میں دفتر قائم کیا جو جنرل بس سٹینڈ سے ملحق تھا تو عبدالقادر حسن لاہور سے اپنے گاﺅں کھوڑہ جاتے ہوئے ہمارے دفتر میں ضرور آتے اور مصطفی صادق کے ساتھ اپنی پ±رانی یادیں تازہ کرتے۔ عبدالقادر حسن نے ایٹم بم کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے اپنے رشتہ الفت کو خوب خوب نبھایا، جب وطن عزیز کے اخبارات میں ڈاکٹر صاحب کا نام شائع کرنے پر پابندی تھی تب بھی عبدالقادر حسن صرف ڈاکٹر صاحب لکھ کر اپنے کالموں کو انکی خدمات کے تذکرہ سے آراستہ کرتے رہے۔ آخر میں تبرک کے طور پر عبدالقادر حسن کے فلیپ کا متن جو انہوں نے میری کتاب ”ایک عہد کی سرگزشت“ کےلئے لکھا۔ میں اس گراں مایہ تحریر کے لئے ہمیشہ ان کا ممنون رہوں گا اور ان کی روح کو ایصال ثواب کرکے اپنی شکر گزاری کا ہدیہ انہیں نذر کرتا رہوں گا۔ وہ لکھتے ہیں۔
محترم دوست جمیل اطہر قاضی پرانے صحافی ہیں اور ایک کامیاب صحافی، انہوں نے اپنی تحریروں اور دوستوں کو ضائع نہیں کیا۔ تحریروں کو جمع کیا ہے اور دوستوں کے تاثرات حاصل کرکے ان کو بھی مدون کردیا ہے اور اس طرح اپنا مکمل تعارف کرادیا ہے۔ بدقسمتی سے میں نے کبھی ان کے کسی ادارے میں کام نہیں کیا اس لئے میں ان کی صحافتی رہنمائی سے محروم رہا لیکن ان کی تحریریں ملتی رہیں اور ان کی دل آویز محبت بھری دوستی بھی جاری رہی، وہ جہاں بھی رہے میں ان سے باخبر رہا اور ان کے ساتھ پرانے تعلق کی روشنی مجھ تک پہنچتی رہی۔ میں ان کی بہت قدر کرتا ہوں کہ انہوں نے کارکن صحافی سے مالک صحافی بننے تک کا سفر نیک نامی کے ساتھ طے کیا۔ نیک نامی کا لفظ میں خاص طور پر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں نیک نامی کمزور پڑتی جارہی ہے جبکہ ہمارے استاد اور بزرگ رہنما صحافی اپنے پیشے کی اعلیٰ روایات قائم کرتے رہے۔ وہ صحافی بھی رہے اور صحافت کے اصولوں پر سیاست بھی کرنا پڑی تو انکار نہ کیا۔ جیلوں میں گئے اور جیلوں سے باہر بھی حکومتی سختیاں برداشت کرتے رہے۔ جمیل اطہر قاضی انہی صحافیوں کی پیداوار ہے جس نے اخباری ادارے قائم کئے اور کامیابی کے ساتھ ان کو چلاتے رہے اور چلا رہے ہیں لیکن ہم نے ان پر کوئی انگلی اٹھتی نہیں دیکھی۔ ان کے ساتھی صحافیوں نے اپنے دلوں میں شرمندگی ضرور محسوس کی کہ ان کا ساتھی صاف ستھرا ہے لیکن ان سے اس کا انتقام نہیں لیا بلکہ اسے برداشت کیا۔
جمیل اطہر کی مہربانی کہ اس نے ” ایک عہد کی سرگزشت“ لکھ کر بہت سارا قرض اتار دیا۔ انہوں نے اپنے اور صحافت کے ساتھیوں اور اپنے دور کے بزرگ سیاست دانوں اور بڑے لوگوں کے بارے میں اپنے تاثرات جمع کر دیئے ہیں۔ یہ نہیں کیا کہ لکھتے رہے اور چھپوانے کے بعد رد ی کی ٹوکری کی نذر کرتے رہے ، یہ ان کی مہربانی ہے کہ جو دیکھا کہہ دیا اور جو محسوس کیا وہ بیان کر دیا۔ اپنے ذمے کوئی قرض نہیں رہنے دیا اور صاحب کتاب بن گئے۔ ان کی یہ کتاب ایک حوالے کی کتاب بھی رہے گی خصوصاً صحافی اس کتاب سے مدد حاصل کرتے رہیں گے کہ ان کی ضرورت کو سمجھنے والے ایک ساتھی نے ان کا کام کر دیا ہے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ میرا جمیل اطہر سے تعارف بہت پرانا ہے اور میں ایک اچھے صحافی اور ایک شائستہ شخص سے متعارف رہا ہوں، جب بھی آمنا سامنا ہوا پیار کی نظروں سے دیکھا اور خوشی ملی کبھی کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوا تو ایک صوفی مزاج نوجوان سے اور کیا مل سکتا ہے۔ جمیل اطہر کا تعلق سرہند سے ہے۔ مجدد کے شہر سے جس کی روشنی سے وہ سرشار اور منور ہوتے رہے، یہ جمیل کی خوش بختی کی علامت ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی کا عکس ان کی معمولی خوش نصیبی نہیں۔ جمیل مجدد کے پیغام کو عام کرنے میں مصروف رہے ہیں، انہوں نے اس پر کتابیں بھی لکھیں اور ایک تنظیم بھی بنا دی۔ آج جب میں جمیل اطہر قاضی کے بارے میں کچھ لکھ رہا ہوں تو محسوس کررہا ہوں کہ میں اپنے اس دوست کا حق ادا نہیں کررہا لیکن عرض ہے کہ وہ یہ چند الفاظ قبول کرلیں۔ “
................................ (ختم شد)