ویسے تو کچھ لوگ اتنے چکنے گھڑے ہوتے ہیں کہ آپ اُنھیں جس طرح مرضی سمجھا لیں۔ اُنھیں خاک سمجھ نہیں آتی بلکہ سمجھ تو آتی ہے لیکن ڈ ھٹائی ، بے شرمی اور بے غیرتی کا جو لیول ہو تا ہے۔ یہ اُس میں ورلڈ چیمپئین ہوتے ہیں۔ آپ کو ئی بھی بات محبت سے یا اپنی ناراضگی سے ظاہر کر لیں۔ کو ئی شعر، مقولہ، مثال پیش کر کے بات کی نزاکت کو سمجھانے کی کوشش کر لیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو ان کی غلطیاں، کوتاہیاں، ناکامیاں، خرابیاں، زیادتیاں بلکہ گناہ بھی ثبوت کے ساتھ پیش کر دئیے جائیں تو وہ اُنکے سر سے گزر جاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ کی ہوئی وعدہ خلافیاں، حق تلفیاں اور ناانصافیاں بلکہ کدورتیں اورخباثتیں کرنے کے بعد بھی انھیں اذالہ کرنے کو توفیق نہیں ہوتی۔ اذالہ کرنا تو دُور کی بات ، انھیں ندامت اور شرمندگی تک نہیں ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب انکے ساتھ مکافاتِ عمل ہوتا ہے تو یہ گھگھیانے سے لیکر خو شامد، چا پلوسی اور جوتا چا ٹنے پر بھی اُتر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عرف عام میں ’’چکنا گھڑا‘‘ کہا جاتا ہے۔ خرابی انکی جینز میں ہوتی ہے۔ دماغ انکا اتنا محدود ہوتا ہے کہ اگر مینڈک اور انکے دماغ کا موازنہ کیا جائے تو مینڈک کا دماغ زیادہ وزنی نکلے گا۔ چکنے گھڑے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک فا تر العقل یعنی عقل سے پیدل ہو تے ہیں۔ چھوٹے دماغ کے ساتھ چھوٹی اور محدود شخصیت رکھتے ہیں۔ دماغ چار چھ چیزوں سے آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ لوگ زیادہ تر ہر وقت کھانے پینے، عیاشی کرنے، سیکس کرنے اور مال بٹورنے جیسی باتوں تک محدود ہو تے ہیں۔ انکے پاس نہ موضوعات ہو تے نہ انکا کینوس بڑا ہوتا ہے۔ زیادہ وقت کھانے اور مستانے کی طرف را غب ہوتے ہیں۔ انتہا درجے کے سست، بزدل، نکمے، ٹر ٹر کرنے والے اور کھوکھلی ہنسی ہنسنے والے، لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانے والے خو شامد پسند اور چاپلوس ہوتے ہیں۔ انکے دماغ میں کبھی کو ئی تعمیری ، تخلیقی، ادبی، تہذیبی، سا ئنسی خیالات نہیں آتے۔ شرم حیا پردے کے متعلق انتہائی محدود اور روایتی سوچ ہوتی ہے۔ رٹی رٹائی اسلامی باتیں کرتے ہیں جس میں بد عتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ غیرت اور حمیت انھیں چُھو کر نہیں گزرتی۔ کو ئی انکے بیوی بچوں سے بد سلوکی کرے، اُنکا حق مارے یا اُنھیں تکلیف پہنچائے مگر یہ بے غیرتی کے ساتھ تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ کسی کو شٹ اپ کال دینا یا منہ پر تھپڑ مارنا انکے بس میں نہیں ہوتا۔ یہ اسقدر چکنے گھڑے ہوتے ہیں کہ کوئی ان کے بچوں سے چیز چھین لے تو بھی بے شرموں کی طرح بُت بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ دوسری قسم انتہائی چالاک، مکار، گھاگ اور منافق قسم کے چکنے گھڑوں کی ہے۔ پاکستان میں شیطان قسم کے چکنے گھڑے سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ انکی مکاری کا لیول دیکھ کے لومڑی بھی کان پکڑتی ہے اور شیطان پناہ مانگتا ہے ۔ یہ وہ چکنے گھڑے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے بے شرمی اور بے غیرتی کی آخری سطح سے بھی گر جاتے ہیں۔ پہلی قسم کے چکنے گھڑے گدھے قسم کے ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے لومڑی صفت ہوتے ہیں۔ یہ آپکو تعداد میں سب سے زیادہ ملیں گے۔ پاکستان میں انکی کثرت ہے جب انھیں کسی سے فائدہ اٹھانا ہو، کام لینا ہو، کمیشن کھاناہو، امیر گھر میں رشتہ کرنا ہو یا نوکری لینی ہو، مال بٹورنا ہو، ناجائز ذرائع استعمال کرنے ہوں، کرپشن کرنی ہو اور عوام کو الّو بنانا ہو تو یہ گھاگ اور ابن الوقت چکنے گھڑے بن جاتے ہیں۔ کوئی غیرت حمیت دلائے مگر انھیں رتی برابر اثر نہیں ہوتا۔ کوئی گالی بھی دے تو ہنس کے کہتے ہیں۔ گالی دوسرا دے رہا ہے ، ہمارا کیا جاتا ہے۔ بعض تو اس حد تک بے شرم ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ گا لیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوں۔ تیسری قسم عالمی سطح پر نظر آتی ہے یعنی چکنے گھڑوں کی یہ قسم انتہا درجے کی میٹھی، نرم، چرب زبان، دُوغلی، منافق ہوتی ہے۔ یہ چکنے گھڑے بھیڑئیے صفت کہلاتے ہیں۔ پولیوکے قطرے فلسطینی بچوں کو بھی بمباری میں پلائے جارہے ہیں لیکن فلسطین کو ایک ریاست سے کھنڈر بنا دیا گیا تو تمام دنیا کی انسانیت سو ئی ہوئی ہے۔ ملالہ یوسفزئی کے گال کے پاس سے صرف گولی گزری تھی جبکہ باقی لڑکیوں کو گولیاں لگی تھیں مگر ملالہ یوسفزئی کو ہیروئن بنایا گیا۔ اُسکے باپ ضیاء یوسفزئی نے خود گل مکئی کے نام سے ڈا ئری لکھی اور نام ملالہ یو سفزئی کا لگا دیا۔ ڈائری میں کون سا افلاطونی نسخہ یا ارسطائی فلسفہ لکھا تھا۔ ملالہ یوسفزئی نے سوات میں کون سی تعلیمی خدمات یا تعلیمی انقلاب لائی تھی لیکن اُسے اور اُسکے خاندان کو برٹش نیشنلٹی دی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ نوبل پرائز دلا یا گیا۔ گھر کو پونڈز سے بھر دیا گیا۔ ملالہ یو سفزئی کے لیے ساری این جی اوز کھڑی ہو گئیں مگر فلسطینی بچوں کے لیے سب کو سانپ سو نگھا ہو ا ہے۔ جو با ئیڈن کی ہیو مینٹی کہا ں گئی۔ امریکہ ہیومن رائٹس کا چئیر مین بنتا ہے۔ سال ہو نے کو آ گیا لیکن فلسطین میں نہتے مسلمانوں پر بمباری ختم نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ جن مقاصد کے لیے بنا تھا۔ آج تک اُس سے ٹکے کا مقصد حا صل نہیں ہوا۔ ایران عراق جنگ ہو یا نائن الیون کے نام پر افغانستان، فلسطین، عراق، شام ، لبنان، مصر، یمن، پاکستان، ایران، لیبیا میں بربریت، تشدد اور قتل عام کیا گیا۔ معمر قذافی، یاسر عرفات، صدام حسین ، اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری ، مُلا عمر اور حماس کے لیڈر اسما عیل ہا نیہ کا بہمیانہ قتل کیا اقوامِ متحدہ کے منہ پر طماچہ نہیں۔ اب اقوام ِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گو تریس نے کہا ہے کہ لبنان کو غزہ کی طرح کھنڈرات نہیں بننے دیں گے۔ حالانکہ لبنان کو بھی اسی سال تہس نہس کر دیا جائے گا۔ کیا اقوام ِ متحدہ سے بڑھکر اسرائیل ہے۔ ان چکنے گھڑوں کو شرم غیرت نہیں آتی کہ وہ جو مر رہے ہیں۔ وہ انسان پہلے ہیں اور مسلمان بعد میں ہیں۔ آجکل یروشلم پوسٹ میں اسرائیل بڑے جوش و خروش سے عمران خان کی حمایت کر رہا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آج بھی عمران خان کو اپنا داماد، بہی خواہ، ہمدرداور عزیز سمجھتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی شروع سے اسرائیل کے حمایتی رہے ہیںجسکی طرف ڈاکٹر اسرار احمد نے وا ضح اشارہ کیا تھا۔ عمران خان کے دُور میں کچھ خفیہ دُورے بھی ہوتے تھے۔ یہ سراسر وطن سے غداری اور اپنے مذہب کے خلاف اٹھنے والے مذموم قدم ہیں لیکن ہمارے ہاں لیڈر اقتدار کی ہوس میں تلوے اور جوتے چا ٹتے ہیں بلکہ مذہب کو بھی خا طر میں نہیں لاتے۔ مثلاً بر سرِ اقتدار حکمرانوں کو دیکھ لیں۔ جنھوں نے آتے ہی انڈین چینلز کُھول دئیے اور پیغام رسانی کے سلسلے بھی شروع کر دئیے۔ حد تو یہ ہے کہ شریف فیملی بھی اب ہر جگہ ہاتھ جوڑ کر ’پرنام‘ کرنے لگی ہے۔ اس وقت پورا پاکستان شدید قسم کے اعصابی تنائو کا شکار ہے۔ ذہنی بیماریاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ حکمران تو جس دن سے بر سرِاقتدارآئے ہیں۔ اپنے اقتدار کو بچانے، جوڑ توڑ کرنے، کمیشن عہدوں بریف کیسوں کی بندر بانٹ کرنے اور ناشتے ظہرانے عصرانے عشا ئیے دینے قومی خزانہ پانی کی طرح لُٹا رہے ہیں۔ آئینی ترامیم کا شوق پڑا ہے۔ لوگ بھوک، فا قوں اور خود کشی سے مر رہے ہیں۔ نوجوان ہاتھوں میں بی ایس، ایم ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لیکر ذلیل اور برباد ہو رہے ہیں لیکن ججوں کی ریٹا ئرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے پر سارا زور ہے۔ پورا پاکستان سرا پا ء احتجاج ہے۔ پینشنرز کی چند ہزار کی پینشن دیتے موت پڑتی ہے۔ خزانے پر بوجھ صرف پینشن کا ہے۔ یہ جو آئینی ترامیم کرانے کے چکر میں اربوں روپیہ گارا مٹی کیا جا رہا ہے۔ اس سے قومی خزانے پر فرق نہیں پڑتا۔ آئی پی پیز بغیر بجلی بنائے اربوں روپے کھا رہی ہیں تو قومی خزانے پر بوجھ نہیں پڑتا۔ ایک سٹے باز کو بلاوجہ ایک ارب سے زیادہ دیدیا۔ اُس سے قومی خزانہ متا ثر نہیں ہوا۔ اب امریکہ جانے کے لیے سو سے زیادہ آدمیوں کو وی وی آئی پی طریقے سے لے جایا گیا تاکہ وہ سب اچھا کی رپورٹ دیں تو قومی خزانے سے دو ارب کا خرچہ بوجھ نہیں بنا۔ ہر وقت ترقیاتی کاموں کے جھوٹے اعداد و شمار، مہنگائی ختم کرنے کے جھوٹے اشتہار، ملک میں امن و امان کی غلط رپورٹس، لوگوں کی امداد کرنے کے جعلی ویب سا ئٹس۔ اگر ترقی خو شحالی کامیابی ہو تو لوگوں کے چہروں پر نظر آئے مگر جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ میں جتنا بھی شعور دوں، احساس دلائوں اور شرم کرائوں مگر سب چکنے گھڑے ہیں۔ اثر کہاں ہوگا؟؟؟