جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس: تاریخ اور اہمیّت 

Sep 24, 2024

فضل حسین اعوان

  دنیا کے سب سے بڑے فورم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس شروع ہوگیا ہے۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک  چلے ہیں۔ وہ 27 ستمبر کو اجلاس سے خطاب کریں گے۔اجلاس میں ہر ملک کے سربراہ کو خطاب کا موقع ملتا ہے۔ہر سال اقوام متحدہ کی طرف سے ایک موضوع رکھا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اسی موضوع پر بات کی جائے۔سب سے پہلے برازیل کو خطاب کی دعوت دی جاتی ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟خطاب کیلئے وقت کی حد 15 منٹ ہے مگر پابندی پر سختی سے عمل نہیں ہوتا۔ فیدل کاسترو اور کرنل قذافی طویل تقریریں کرچکے۔

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں یہ مصروف ترین اور اہم ترین ہفتہ ہے جہاں دنیا بھر کے رہنما عالمی مسائل پر بات چیت کرنے یا اپنے ممالک کی مخصوص ترجیحات کو واضح کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
بہت سے لوگوں کے لیے سالانہ عام مباحثہ جنرل اسمبلی کے اس 79ویں اجلاس کا اہم ترین حصہ ہو گا۔ لیکن یہ عام مباحثہ کیا ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟یہ سوالات بھی اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اٹھائے گئے ہیں اور ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔23  ستمبر کو شروع ہونے والے اس مباحثے کے حوالے سے کچھ باتوں سے آگاہی ضروری ہے: عام مباحثہ کسے کہتے ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق عام مباحثہ یو این کے 193 رکن ممالک کے سربراہان ریاست و حکومت کا ستمبر میں ہونے والا سالانہ اجلاس ہے۔ یہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے آغاز میں شروع ہوتا ہے جسے عرف عام میں 'یو این جی اے' بھی کہا جاتا ہے۔
یہ عام طور پر اجلاس کا پہلا مباحثہ ہوتا ہے اور متوازی اعلیٰ سطحی اجلاسوں کے علاوہ یہ واحد موقع ہوتا ہے جس میں سربراہان ریاست و حکومت باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔
کیا یہ واقعی مباحثہ ہے؟
درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ عام مباحثے میں تمام رکن ممالک کے نمائندوں کو جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے کا موقع ملتا ہے۔
کسی تقریر کے فوری بعد آپس میں کوئی بات چیت یا بحث مباحثہ نہیں ہوتا۔ تاہم رکن ممالک کو کسی تقریر پر جواب دینے کا حق حاصل ہے اور یہ حق سربراہان ریاست تحریری طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا جاتا ہے جو اسے تمام رکن ممالک کے نمائندوں کو بھیج دیتے ہیں۔ عام مباحثے کے دوران کسی تقریر کے جواب میں لکھے بیانات ہر دن کے اختتام پر جاری کیے جاتے ہیں۔
'کوئی پیچھے نہ رہے:
 موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے امن، پائیدار ترقی اور انسانی وقار کے فروغ کی خاطر مشترکہ اقدامات' رواں مہینے جاری جنرل اسمبلی کے اس اجلاس کا بنیادی موضوع ہے۔ یہ موضوع جنرل اسمبلی کے صدر کی جانب سے وسیع تر مشاورت کے بعد منتخب کیا گیا اور بہت سے سربراہان ریاست اپنی تقاریر میں اس کا حوالہ دے سکتے ہیں تاہم ان کے لیے ایسا کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
کون کب خطاب کرتا ہے؟
موجودہ طریقہ کار کے تحت اجلاس کے آغاز کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل( آج کل انتونیو گوئترس)ایک بیان دیتے ہیں جس کے بعد جنرل اسمبلی کے صدر خطاب کرتے ہیں۔یہ خطاب فائلمین ینگ نے کرنا ہے۔
روایتی طور پر اور کم از کم ستمبر 1955 میں جنرل اسمبلی کے 10ویں اجلاس کے بعد اب تک برازیل ہی مباحثے کا آغاز کرتا آیا ہے۔ اقوام متحدہ کے 'ادارہ ضوابط و روابط' کے مطابق، ابتداً جب مباحثہ شروع ہوا تو کوئی ملک پہلے بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ایسے میں برازیل نے کئی مواقع پر پہل کی۔
برازیل کے بعد اقوام متحدہ کے میزبان ملک امریکہ کو خطاب کرنا ہوتا ہے۔ دیگر ممالک کے سربراہان ریاست و حکومت کو خطاب کرنے کی باری دیتے ہوئے جغرافیائی توازن، نمائندگی کی سطح اور ان کی ترجیحات کو مدنظر رکھا جاتا ہے جیسا کہ، یہ بھی ممکن ہے کسی ملک کا سربراہ مباحثے کے آغاز پر نیویارک میں موجود نہ ہو اور اسی وجہ سے اس کی باری مقررہ وقت کے بجائے بعد میں آئے۔
رکن ممالک کے علاوہ ہولی سی، فلسطینی ریاست اور یورپی یونین کو مباحثے میں خطاب کی دعوت دی جاتی ہے جنہیں اقوام متحدہ میں مشاہدہ کار کا درجہ حاصل ہے۔
طویل اور جارحانہ خطابات
عام مباحثے کے دوران ہر مقرر کو بولنے کے لیے غیررسمی طور پر 15 منٹ دیے جاتے ہیں۔ جب کسی مقرر کا وقت پورا ہو جائے تو سرخ روشنی (فلیش لائٹ) کے ذریعے اسے مطلع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن مقرر کی تقریر میں مداخلت کرنے اور اسے روکنے کی کوئی روایت نہیں ہے۔
مقررین رضاکارانہ طور پر 15 منٹ میں اپنی تقریر مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم بہت سے سربراہان ریاست اس سے زیادہ وقت بھی لیتے ہیں۔
کیوبا کے سابق رہنما فیڈل کاسترو نے 1960 میں 269 منٹ طویل تقریر کی تھی۔ جنرل اسمبلی کے عام مباحثے میں طویل ترین خطاب کا یہ ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔
2006 میں امریکہ اور وینزویلا کے مابین تناؤ کا آغاز ہونے پر وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اس وقت امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش کو 'شیطان' کہا تھا۔
2009 میں لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی نے جنرل اسمبلی کے عام مباحثے میں 100 منٹ طویل تقریر کی اور اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اس کے پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو کے اختیار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
2012 میں اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بم نما کارٹون کی نمائش کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ ایران چند مہینوں میں جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔
2017 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عام مباحثے میں تقریر کرتے ہوئے شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکی دی اور اس کے رہنما کم جانگ ان کو حقارتاً 'راکٹ مین' کہا تھا۔
ہتھوڑا اور واک آؤٹ
جنرل اسمبلی کا پہلا مباحثہ 1946 میں ہوا اور گزشتہ آٹھ دہائیوں میں کئی طرح کی روایات، رسومات، حالات اور چند مفروضے بھی اس اجلاس سے وابستہ ہو چکے ہیں۔
1952 میں آئس لینڈ کی جانب سے اقوام متحدہ کو بطور تحفہ دیا گیا لکڑی کا ہتھوڑا صبح کے وقت جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے اور سہ پہر میں اس کے اختتام کے وقت استعمال ہوتا ہے۔ جب ضروری ہو تو اس سے میز کو بجا کر اجلاس میں نظم و ضبط قائم رکھنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔
اسے ماضی میں سوویت یونین کے رہنما نکتیا خروشیف کو خاموش کرانے کے لیے بھی بجایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کسی بات پر زور دینے کے لیے اپنے جوتے سے پوڈیم کو پیٹنا شروع کر دیا تھا۔
مباحثے کے دوران جب ممالک کے وفود کسی رکن ملک کے خیالات یا افعال پر احتجاج کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کے ہال سے باہر جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سفارتی آداب متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم آج کل یہ عام بات بن گئی ہے جس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے وفود ایک دوسرے کی تقاریر کے دوران تواتر سے احتجاج اور واک آؤٹ کرتے رہتے ہیں
عام مباحثے کو کہاں دیکھا جائے؟
اگرچہ جنرل اسمبلی کا یہ مباحثہ بند دروازوں کے پیچھے ہوتا ہے لیکن اس کی تمام کارروائی براہ راست دکھائی جاتی ہے اور طلب کرنے پر یو این ویب ٹی وی پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
عام مباحثوں میں ہونے والی تمام تقاریر ڈگ ہیمرشولڈ لائبریری میں موجود ہیں۔
جنرل اسمبلی کے 78 گزشتہ مباحثوں میں ہونے والی بہت سے تقاریر یا ان کی جھلکیاں اقوام متحدہ کی بصری و سمعی لائبریری میں دستیاب ہیں۔
اجلاس کے دوران بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے لیکن ان سب کی حیثیت نشستند گفتند برخاستند سے زیادہ نہیں۔ستمبر 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ادارے کی اہمیت و حیثیت کی صحیح تصویر کشی کی تھی۔انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا تھا کہ 'اقوامِ متحدہ کے اندر بہت امکانات تھے لیکن اب یہ ایک ایسا کلب بن کر رہ گیا ہے جہاں لوگ آتے، باتیں کرتے اور اچھا وقت گزار کر چلے جاتے ہیں۔ بہت افسوس ناک!'۔۔۔ البتہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس کئی سربراہان مملکت کو کتھارسز کا موقع ضرور فراہم کر دیتا ہے۔

مزیدخبریں