ہمارا بچپن قہقوں کی دنیا میں گزرا،بزرگوں کی محفلیں زعفران ہوا کرتی تھیں اور گر اس میں دوست بھی شراکت دار ہوں،اللہ مان الحفیظ،قیامت صغری برپا ہو جاتی۔ہر دوست ایک دوسرے کی بات پکڑ کر لقمہ دیتا، تیسرا دوست اس میں ٹیڑھ ڈھونڈتا اور آخری بزرگ بات کا بتنگڑ بنا دیتے۔خاندانی محافل کا بھی پیرایہ کچھ مختلف نہ تھا،کہیں پھپی خالہ کی چہلیں ہوتی اور کہیں ماموں بھانجے قہقے لگاتے،الغرض عشائیے ظرافت و طنز و مزاح سے بھرپور ہوتے۔
کھیل کود کے میدان میں دوستوں یاروں سے مقابلہ رہتا ،کبھی گیند بلا اور کبھی گیند چھڑی۔کھیل کے دوران مجال ہے کسی کی غلطی پکڑی نہ جائے،پھر اس بیچارے کی زندگی ان لمحات میں اجیرن ہو جاتی اور باقی دوست ٹھٹوں و قہقوں سے زخم پر نمک پاشی کرتے۔یہ سلسلہ گر صرف کھیل کے میدان تک محدود رہتا،اس کا بھی جواز تھا ،پر کھیل کی غلطی و بھول چوک ساری درسگاہ میں جنگل کی آگ کی مانند پھیلا دی جاتی اور ہر طرف سے آوازیں کسی جانے لگتیں اور کھلاڑی پر قہقے لگتے و فرضی لطائف بھی گھڑے جاتے۔
بچپن میں دنیا محض چند دوست احباب اور رشتہ داروں کے محور میں گھومتی پھرتی ہے،لہذا جو موضوع مذاق بن گیا،اس کی شامت آ گء اور ہفتوں اسے رگیدا جاتا اور قہقوں سے اسے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔درسگاہ میں چند بچے آ بیل مجھے مار کے اصول پر کاربند نظر آتے ہیں،وہ روزانہ اپنی بیوقوفانہ حرکات سے نہیں چوکتے اور قہقوں کا طوفان ان کے آس پاس منڈلاتا رہتا ہے۔کچھ جھلو ملو قسم کے بچے ،اپنی عادات و اطوار سے طنز و مزاح کا شکار ہوتے ہیں اور پھر ان کی پھنے خانی آگے آڑھے آتی ہے،وہ ساری جماعت کے طفنن کا ذریعہ بنتے ہیں۔الغرض کوء دن قہقوں سے خالی نہیں گزرتا،دوست ہنسی مزاح کا سیلاب لاتے ہیں اور ہم جماعت ساتھی باہمی زبانی رسہ کشی اور الم غلم باتوں سے ایک دوسرے کو محظوظ کرتے ہیں۔
پھر ہم بڑے ہو جاتے ہیں،بزرگی کی چادر تن جاتی ہے اور مصنوعی تند خوئی ہمارا شعار بن جاتا ہے۔ہر محفل میں لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہوتے ہیں،ہر شخص طرم خانی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے اور دوسرے کی کسی بات کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔آپس کی زبانی تلوار زنی و چپقلش سے فضاء مکدر ہو جاتی ہے ،اس صورتحال کے پیش نظر محفلیں سونی سونی سے ہو جاتی ہیں اور قہقوں کی سونامی ماضی کی حسین یادوں کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔
اپنے اوپر ہنسنے کا فن ظرف طلب کام ہے،جو معدودے چند افراد کے بس کی بات ہے اور اس کے لیئے خاصے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی بھی کہانی و قصے میں مزاح ڈھونڈنا ،پھر اسے اپنی زندگی کے کسی پہلو سے نتھی کرنا اور اپنے ہی پرخچے اڑانا،یہ با کمال حس مزاح کم ہی کو نصیب ہوتی ہے۔دوسروں کو ہنسانا ضرور عبادت کا حصہ شمار ہونا چاہیئے،بسا اوقات اعلی و چھبتا مزاح سن کر فرشتے بھی مسکرا دیتے ہونگے اور اسی بنا مزاح نگار ادیب و شاعر یقینا اللہ کے دربار میں سرخرو ہونگے۔
ہم اپنی زندگی میں دوستوں کی کمیابی دیکھتے ہے، اسی کے ساتھ ساتھ خوشی ارزاں ہے اور زعفرانی محفلیں ،جو ٹھٹوں و قہقوں سے بھرپور تھیں،وہ یاد ماضی بن کر ذہنی خلیئوں کی دبیز پرتوں میں ہی محفوظ ہوں گی۔دنیا بھر میں ایک عجب طلاطم ہے، دنیاوی و مادی کروفر کی دوڑ نے ،ایک بے چینی اور ہیجان انگیز کیفیت پیدا کر دی ہے اور لطیف احساسات و جذبات رخصت ہو گئے ہیں۔دینی دستہ ہر اچھے عمل کو بدعت قرار دے دیتا ہے،لطائف کی ختنہ کر دی گء ہے اور مزاح کے سر پہ ٹوپی پہنا دی گء ہے۔اب اس صورتحال کے پیش نظر، کوء ظریف کیا خاک مزاح کی گڈی اڑا سکے گا اور یا تو اس کی درگت بنے گء یا اپنا سر کٹوائے گا۔
زندگی میں ہنسنا بولنا و قہقیلگانا نہایت اہم ہے،اس سے ذہنی پریشانی و تفکر کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور دل میں عجب سرور پرور کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔چہرے کی مسکراہٹیں سلوٹوں کو پیچھے دھکیل دیتی ہیں ،اعضاء میں ہلکا پن محسوس ہونے لگتا ہے، اور چال ڈھال میں ترنگ پیدا ہوتی ہے۔جسم میں بجلی کوند جاتی ہے،قلب کی حرکت میں تیزی آ جاتی ہے،شاید اسی برق رفتاری سے بیماریوں کا مداوا ہوتا ہے۔
اللہ نے بھی اپنی آیات میں طنز و مزاح فرمایا ہے،موت کی آمد کی اطلاع اور اس کا" ہر ذی روح کو مزا چھکنا" اسی زمرے میں آتا ہے۔اللہ کافرون میں فرماتا ہے،"تمہارے لیئے تمہارا دین اور میرے لیئے میرا دین"،کافروں سے اللہ مزاح فرما رہا ہے،چلو تم اپنی راہ لو اور نبی ص آپ اپنی راہ لیں۔پھر ارشاد باری تعالی ہے"تف ہے ان نمازیوں کے لیئے،جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں "،اللہ اکبر،تمہاری یہ دکھاوے کی نمازیں بیکار ہیں اور اس کے مقاصد سے انحراف کریں"،عبادات کی روح سمجھو اے ابن آدم،تمہاری تخلیق دنیاوی معاملات میں حکمت پہ عمل ہے ورنہ عبادات کے لیئے فرشتے ہی کافی تھے۔
شاید ہنسی خوشی بکھیرنے والوں کی، خدا کے دربار میں الگ نشست لگاء جائے گیا اور مولا ان ظرافت و مزاح کے شہنشاہوں پر، اپنی خاص عنایت و کرم فرمائیں گے۔ہم بھی اسی کارواں کے شراکت دار ہیں،ہنسنا ہنسانا ،قہقے لگانا خادم کا خاصہ ہے اور دوست احباب کو بھی اسی کارواں امید میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔