مسلم اُمہ کی سلامتی کے لیے سفرِ حجاز

زندگی کا زیادہ عرصہ پاکستان سے باہر گزارا لیکن دل ہمیشہ پاکستان ہی میں اٹکا رہا اور دل میں کیا بسا ہے دل میں وہ مقدس مقامات ہیں جن کی زیارت کے لیے ہر مسلمان کے دل میں ہمہ وقت تڑپ رہتی ہے۔ حجاز مقدس مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کئی مرتبہ عمرے کی سعادت حاصل کی۔ اب پھر پروگرام بنا ہے میں اور میری اہلیہ بدر النساء وڑائچ عمرے کے لیے جا رہے ہیں۔ایک بار پھر عقیدتوں کے پھول نچھاور کریں گے، بارگاہ رب العزت میں دعا کریں گے اور نذرانہ عقیدت بحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی میں روضہ رسول پر پیش کریں گے۔اس کے بعد بدرالنساء تو واپس ٹورنٹو چلی جائیں گی۔ میں نے ایشیا کے 13 ممالک کے دورے پر نکلنا ہے۔مجموعی طور پر میرا یہ وزٹ روحانی ہے، سیاحتی ہے، تعلیمی ہے اور معلوماتی ہے۔ دوستوں سے ملاقاتیں بھی اس دوران ہوں گی۔سفر کو وسیلہ ظفر بھی کہا جاتا ہے۔جن ممالک میں میں نے جانا ہے ان ممالک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات سے بھی آگاہی ہوگی۔ ان سب کے نظاموں کا میں قریب سے جائزہ لیتا ہوں، ان کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، انہوں نے کیسے ترقی کی اس راز کو پانے کی بھی جستجو ہوتی ہے۔ان سب کا تذکرہ میں اپنے کالموں، کتابوں اور آج کل وی لاگز میں کرتا چلا آ رہا ہوں۔جس پر یوٹیوب فیس بک ایکس اور انسٹاگرام پر زبردست رسپانس آ رہا ہے۔میں 25 کتابیں لکھ چکا ہوں۔میری کئی کتابیں زیر طبع ہیں ان کی بھی اس سفر کے بعد تکمیل ہو جائے گی۔ چند ماہ قبل ایسا ہی سفر میں نے کچھ یورپین ممالک کا اور وسط ایشیائی ریاستوں کا کیا تھا۔تاشقند، کاشغر ،بلخ، بخارا، آذر بائیجان جانے کا موقع ملا۔ایک مرتبہ فیڈرل کاسترو کے دیس کیوبا بھی ہو کر آیا ہوں۔ کاسٹرو مزاحمتی سیاست کا استعارہ ہیں۔پاکستان میں ان جیسی دلیری کی جھلک ذوالفقار علی بھٹو میں نمایاں تھی۔عمران خان بھی آج کل اسی ڈگر پر رواں ہیں۔ فیڈرل کاسترو کے بعد کیوبا کی آزادی اور خودمختاری کمپرومائز ہوتی چلی گئی۔ آج اس ملک میں امریکہ کا منہ زور قسم کا عمل دخل ہے۔ وہاں پہ عقوبت خانے بنا لیے گئے ہیں جن میں دنیا بھر سے ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو امریکہ کے سامنے بلند آواز میں بات کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔حجاز مقدس جانے کا جب بھی قصد کیا تو میرے سامنے نہ صرف شیخ سعدیؒ کی رباعی آ جاتی ہے بلکہ پورا واقعہ گھوم جاتا ہے۔شیخ سعدیؒ سے منسوب بہت مشہور عربی رباعی ہے۔
بلغ العلیٰ بکمالہٖ
کشفَ الدْجیٰ بجمالہٖ
حسْنت جمیعْ خِصالہٖ
صلو علیہ و آلہٖ
مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسولؐ میں تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ ادا نہ ہوتا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو:صلو علیہ و آلہ۔
یوں شیخ سعدیؒ کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس رباعی کو شرف قبولیت بخشا اور اس طرح شیخ سعدیؒ نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے۔ ایسے واقعات ہم مسلمانوں کو روحانی طور پر توانا رکھتے ہیں۔ حجاز مقدس ہماری آرزوؤں تمناؤں اور عقیدتوں کا مرکز محور ہے۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مقدس ہمارے لیے یہی جگہ ہے یہاں ہم اپنی آرزوئیں لے کر جاتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور دعائیں اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں براہ راست پہنچتی ہیں اور قبول ہو جاتی ہیں۔آج کل پاکستان کی جو صورتحال ہے سیاسی صورتحال، معاشی صورتحال اور جس طرح سے پاکستان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے گھیرے میں ہے، اس سے نکلنے کی ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا :
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
میرا اس پر ایمان کامل اور پختہ یقین ہے کہ ذوق یقیں ہو تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں۔ اس کے ساتھ علامہ اقبال نے یہ بھی کہا تھا:
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
 ذوق یقین سے زنجیریں ضرور کٹ جاتی ہیں مگر اس کیساتھ شمشیر و سناں اول ،مطلب شاہانہ زندگی گزارنے کے لیے آپ کو کچھ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ نے جہانبانی کرنی ہے دنیا پر سلطانی کرنی ہے تو پھر شمشیر و سناں اول، جہاد کی ضرورت ہے، جہد کی ضرورت ہے، کوشش کی ضرورت ہے۔ بہرحال دعاؤں کا اپنا اثر ہے یہ دونوں مل کر ہی آپ کو ترقی خوشحالی اور جہانبانی کی معراج پر پہنچاتی ہیں۔ آج مسلمانوں کا پوری دنیا میں کیا حشر ہے ،کیا حال ہے وہ فلسطین اور کشمیر کو دیکھ کر آپ کے سامنے ہے۔ وہاں بھی یہی چیز لاگو ہوتی ہے۔ شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی رحمت بھی درکار ہے۔اس کا شامل حال ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ روضہ رسولؐ اور خانہ خدا کے سامنے کھڑے ہو کر میں بھی مسلمانوں کی مشکلات کے خاتمے کے لیے گڑگڑا کر دعا کروں گا۔
ایک دوست کہہ رہے تھے کہ یہاں سے مکہ کتنا دور ہے، مکہ سے مدینہ کتنی دور ہے تو میں نے اسے کہا کہ یہاں سے مکہ اور مدینہ زیرو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ حیران ہو گیا کہ یہ کیا بات کر رہے ہو۔ اسے بتایا کہ مکہ مدینہ یہ میرے اور آپ کے دل میں ہیں۔ ذرا آنکھیں بند کر کے دیکھو آپ کو یہ مقدس مقامات بند آنکھوں کے سامنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ نظر آئیں گے۔
دعاؤں میں اثر ہے، فریادیں رنگ لاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود بھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔اسرائیل کی بربریت پوری دنیا کے سامنے ہے۔ امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے، اقوام متحدہ بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔فلسطین اسرائیل جنگ کو ایک سال ہونے کو ہے اس دوران 41 ہزار فلسطینی جن میں بچے، خواتین، بوڑھے اور مریض بھی شامل ہیں وہ شہید کیے جا چکے ہیں ۔ایک لاکھ لوگ زخمی ہو کر اپاہج اور معذور ہو چکے ہیں جب کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔فلسطینی اپنے گھروں تو کیا پناہ گزین کیمپوں، ہسپتالوں، سکولوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس سے بڑی سفاکیت کیا ہو سکتی ہے۔شاعر نے فرمان نبویؐ کو شعر کی زبان دی ہے جو آج ہماری حالت پر پوری طرح سے منطبق ہوتا اور عکاسی کرتا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
60 اسلامی ممالک ہیں ،جن میں سے دو کے پاس ایٹمی قوت ہے۔ ایران بھی یہ صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔اس کے باوجود بھی اسرائیل کے مقابلے میں فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہے۔ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کی بھارت نے جو حالت کر دی ہے۔وہ دنیا کے سامنے ہے، کشمیر اور فلسطین میں ایک دوسرے سے بڑھ کر انسانی المیات جنم لے چکے ہیں۔مگر مسلمان متحد نہیں ہیں ورنہ تو آزادی فلسطین اور کشمیر برسوں کی نہیں مہینوں کی معرکہ آرائی کی بات ہے۔

ای پیپر دی نیشن