‘‘وہ’’ نیوٹرل ہوچکے ہیں! کوئی یہ مانتا نہیں اور کوئی تو یہ چاہتا ہی نہیں لیکن کیا وہ واقعی نیوٹرل ہوگئے ہیں۔ سوال اہم ہے جس کا جواب یا تو اس بات پر یقین کرلینا ہے یا حالات واقعات کا جائزہ لینا ہے۔ تو ہم دوسرا آپشن لے لیتے ہیں چند سال قبل انہوں نے خود کو نیوٹرل کرلینے کا اعلان کیا تو ظاہر ہے اس سے پہلے وہ نیوٹرل نہیں تھے لیکن جب وہ نیوٹرل نہیں تھے تو کیا کچھ ہوتا رہا، زیادہ پیچھے نہیں جاتے۔ آج حکومت ایک آئینی ترمیم کیلئے چند نمبرز ہورے کرنے کی مشکل میں ہے،پھر پارلیمنٹ سے قانون منظورہو بھی جاتا ہے تو عدالت اسے جھٹک دیتی ہے لیکن ایک ایسا بھی وقت تھا جب ہماری اسی سب سے بڑی عدالت نے ایک فوجی آمر کو،جی ہاں ایک شخص کو آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا تھا۔ لیکن جب ‘‘وہ’’ نیوٹرل نہیں تھے،انتخابی دھاندلی کی بہت بات ہوتی ہے 2002 کے الیکشنز تو شاید کسی زکر میں ہی نہیں آتے جب ملک کی دو سب سے بڑی جماعتوں کے سربراہان ملک کے دو مقبول ترین لیڈرز کو انتخابات سے باہر کردیا گیا ایک بڑی جماعت کو تو نئے نام سے الیکشن لڑنا پڑا سیٹوں کی کیسے تقسیم ہوئی وہ اپنی جگہ ،حکومت سازی کیلئے نمبرز پورے نہیں ہوئے تو ایک جماعت کے مطلوبہ تعداد میں ارکان کا راتوں رات الگ گروپ بنادیا گیا۔ لیکن تب ‘‘وہ’’نیوٹرل نہیں تھے۔ منتخب حکومت کے سامنے اسلام آباد کے حساس ترین ریڈ زون میں کئی مہینوں تک ایک دھرنا دیا گیا پارلیمنٹ پر حملہ ہوا حکومت کچھ نہ کر پائی کیونکہ تب ‘‘وہ’’ نیوٹرل نہیں تھے۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو اقامہ رکھنے پر تاحیات نااہل قرار دیدیا گیا اس کو سزا دلوانے کیلئے پہلی بار نگران جج مقرر کیا گیا اسے بیٹی سمیت جیل میں ڈالا گیا تب وہ نیوٹرل نہیں تھے۔ اپنی مرضی کی پارٹی کو اقتدار دلوایا گیا اس کے مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا سینیٹ میں دوتہائی اکثریت والوں سے چند منٹوں میں سادہ اکثریت بھی چھین لی گئی تب وہ نیوٹرل نہیں تھے ہائیکورٹ کے ایک سینئر جج اپنے کام میں ایجینسیوں کی مداخلت کی شکایت کرتے ہیں تو انہیں نہ صرف نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں بلکہ ان کے ساتھی ججز بقول ان کے ان کا سوشل بائیکاٹ کردیتے ہیں۔ اپنے ایک فیصلے میں ایجنسیوں کے کردار کا زکر کرنے پر عدالت عظمی کے سینئر جج کو حکومتی ریفرنس کے زریعے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب وہ نیوٹرل نہیں تھے۔ پھر وہ نیوٹرل رہنے کا اعلان کردیتے ہیں۔ تو ان کی اپنی بنائی حکومت دھڑام سے گر جاتی ہے عدالت ان پر الزمات لگانے والے کو گرفتاری کے بعد مرسڈیز گاڑی میں بلا کر ججز گیٹ سے کمرہ عدالت پہنچا کر گڈ تو سی یو کہتی ہے اور ضمانت کا حکم دیتی ہے کب ؟جب وہ نیوٹرل ہوگئے تھے۔ نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث اور اشتہاری قرار دئیے جانیوالے افراد کو من پسندعدالتوں سے ضمانتیں ملتی ہیں اور وہ انتخابات لڑتے ہیں کب ؟جب وہ نیوٹرل ہوجاتے ہیں۔ کچھ تو ایسا ہے کہ وہ کام جو جب وہ نیوٹرل نہیں تھے راتوں رات ہوجاتے اب چاہنے کے باوجود نہیں ہوپارہے ،بہت سے لوگ یہاں اس تبدیلی کو شعور سے تعبیر کرتے ہیں تو بات یہ ہے کہ یہ ‘‘شعور’’ بھی تو تبھی آیا جب وہ نیوٹرل نہیں رہے۔ تو ہو کیا رہا ہے ؟ دراصل ہو سیاست رہی ہے اور یہاں سیاست وہی نہیں کررہے جن کا کام ہے اور بھی ادارے سیاست سیاست کھیل رہے ہیں آپ کو کیا لگتا ہے سب سے بڑی عدالت سے ایک سیاسی کیس میں ایک ایسا فیصلہ آجاتا ہے جس میں ان تمام میں سے کسی کو جو ‘‘انصاف ‘‘مانگنے آئے تھے انصاف نہیں ملتا اور اسے ‘‘انصاف ‘‘دے دیا جاتا ہے جو عدالت کے سامنے انصاف کا طبگار ہی نہیں تھا ،یہ سیاسی فیصلہ نہیں ؟ بڑے بڑے قانونی ماہرین تو ایسا سمجھے ہیں یہاں تک کہ اختلاف کرنیوالے اسی بنچ کی ججز بھی اسے آئین کی از سر نو تحریر سے تعبیر کرتے ہیں اب اس سیاسی فیصلے کے جواب میں جو قانون سازی سامنے آئی وہ بھی جوابی سیاست ہی تھی لیکن جنہوں نے ایسا کیا ان کا تو کام ہی سیاست اور قانونی سازی ہے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت سے مستفید ہوئی ہیں اور سب نے اس کا خمیازہ بھی بھگتا ہے، اس سے انہوں نے سبق بھی سیکھا جس کا بڑا اظہار 2006 کا میثاق جمہوریت ہے لیکن ان جماعتوں کا گلہ ہے کہ ان کے مقابلے میں ایک ایسی تیسری قوت کو لاکھڑا کیا گیا ہے جو غیر سنجیدہ اور غیری سیاسی ہے جبکہ یہ تیسری قوت تو کسی اور کو قوت تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی یقینا ماضی سے سیکھا ہے تبھی تو نیوٹرل ہوجانے کا برملا اعلان کیا ہے جبکہ عدلیہ نے بھی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے کچھ فیصلوں کو درست کرنے کی کوشش کی ہے دوسری جانب فوج سمجھتی ہے نومئی اس کی صفوں میں بغاوت کی کوشش تھی جیسے ناکام بنادیا گیا ایسا کرنیوالے فوج کے مجرم ہیں اور معافی یا سزا کے بغیر یہ لوگ باہر آجاتے ہیں تو یہ فوج کیلئے نقصان دہ ہوگا اور مستقبل میں فوج پر اسی قسم کے حملوں کا راستہ کھل جائیگا دوسری جانب عدلیہ کے اندر ایک واضح تقسیم سامنے آچکی ہے اور کچھ عناصر سوشل میڈیا کے زریعے تیرا جج میرا جج کرکے اس تقسیم کو بڑھاوا دے رہے ہیں دنیا کے اکثر ملکوں میں اداروں کے درمیان اختیارات کے حصول کی کھینچا تانی رہتی ہے لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ،ہمارے یہاں بھی اگر آئین کو ریڈ لائن بناکر یہ سب کچھ ہوتا ہے پھر تو پریشانی کی کوئی بات نہیں لیکن جہاں یہ ریڈ لائن کراس ہوئی وہاں کوئی ریڈ فلیگ بھی سامنے آسکتا ہے۔ جو ملک کیلئے ٹھیک ہوگا نہ کسی اور کیلئے۔