میرا سکول

عنوان دیکھ کر آپ محسوس کر رہے ہوں گے کہ شاید یہ کوئی امتحانی سوال ہے اور یہ مضمون پرچے میں لکھنا مقصود ہے۔ جی نہیں یہ یادیں ہیں اپنے سکول کی جو چار دہائیوں کے بعد تازہ کی جا رہی ہیں۔ زمانہ طالبعلمی ہر سٹوڈنٹ کا سنہری دور ہوتا ہے۔ ضروریات ماں باپ سے ضد کرکے پوری کی جاتی ہیں، معاش کی کوئی فکر نہیں ہوتی، دوستیاں مفادات سے بالاتر ہوتی ہیں، چڑھدی جوانی کا اپنا سحر ہوتا ہے، مشاغل کے لیے وافر وقت موجود ہوتا ہے، بندہ فکروں سے آزاد ہوتا ہے۔ لیکن جب بندہ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو مسائل کے گورکھ دھندے میں ایسے الجھ جاتا ہے کہ زمانہ طالبعلمی جیسی عیاشیوں کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مجھے اپنے سکول کا خیال ایسے آیا کہ میں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک سرکاری سکول کا میٹرک اور نہم کا شاندار رزلٹ ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ میرے سکول گورنمنٹ طارق ہائی سکول کا رزلٹ تھا۔ مجھے تجسس ہو رہا تھا کہ ایک سرکاری سکول کے بچے بھی نمایاں پوزیشن لے سکتے ہیں اور میرے سکول کا رزلٹ کبھی بھی بہت اچھا نہیں رہا تھا۔ میں نے پوسٹ پر کمنٹس کیے، سکول کے اساتذہ کی محنت کو سراہا اور لکھا کہ میں بھی اس سکول کا سابق طالبعلم ہوں، میں نے میٹرک اسی سکول سے کیا تھا۔ہیڈ ماسٹر صاحب میاں شکیل معراج نے مجھ سے فون نمبر مانگا۔ انھوں نے مجھے فون کرکے سکول آنے کی دعوت دی اور کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کو خود انعام دیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی اور کیا ہو سکتی تھی کہ میں جس سکول میں پڑھتا رہا ہوں وہاں مہمان کی حیثیت سے جاؤں۔ میں لمبے عرصے کے بعد اپنے سکول جا رہا تھا اور خیالوں میں گم تھا کہ آج میں اپنی گاڑی میں سکول جا رہا ہوں لیکن مجھے وہ زمانہ طالبعلمی زیادہ اچھا لگ رہا تھا جب روزانہ بسوں میں سفر کر کے سکول جایا کرتے تھے۔ محدود جیب خرچ سے بھی نان چنے کھانا سکول کے باہر ریڑھی والے سے لڈو پیٹھیاں والے کھانا اور کبھی کبھار بوتل پینا اور آئس کریم یا قلفی کھانا عیاشی تصور کیا جاتا تھا۔ سکول پہنچنے پر اساتذہ اور طلباء نے استقبال کیا۔ ہمارے وقتوں کے سکول اور آج کے سکول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ہمارے وقت تین چار کمرے نیچے اور تین چار کمرے فرسٹ فلور پر ہوتے تھے جن میں ایک کمرہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا دفتر تھا، ایک سٹاف کے استعمال میں تھا اور باقی کمروں کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہوتی تھیں۔ فرنیچر بھی نہ ہونے کے برابر تھا لیکن خلوص بہت تھا۔ امیروں غریبوں کے بچے اکٹھے پڑھتے تھے۔ لیکن اب مجھے طلباء کے چہروں سے پتہ چل رہا تھا یہ وہ بچے تھے جن کے والدین کے پاس اتنی سکت نہ تھی کہ وہ کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھا سکیں۔ مجھے حیرانی ہو رہی تھی کہ سکول بیشک سرکاری تھا لیکن وہاں کا ماحول پرائیویٹ سکولوں سے بڑھ کر تھا۔ تین منزلہ خوبصورت عمارت جس میں ایک بڑا سا ہال، قابل دید صفائی، زبردست پلانٹیشن، سکول کے باہر بورڈ کے امتحان میں نمایاں نمبر حاصل کرنیوالے طلباء کی تصاویر پر مبنی فلیکس۔ سکول کا ماحول دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ یہ کوئی سرکاری سکول ہے کیونکہ یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کا سرکاری ملازم یہ سمجھتا ہے کہ وہ سرکاری ملازمت حاصل کرکے ریاست کا داماد بن چکا ہے لہذا اسے اب کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ صرف وقت گزاری کرتا ہے۔ کمرشل ازم اتنا گھر کر چکا ہے کہ ہر بندہ وہ کام کرتا ہے جس میں اس کا ذاتی مفاد ہو۔ آج پرائیویٹ ادارے اور اکیڈمیاں کھمبیوں کی طرح اگ رہی ہیں اور سرکاری ادارے رزلٹ نہ دینے کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں۔ اگر ہمارے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی پروموشن امتحانی نتائج کے ساتھ نتھی کر دی جائے تو کافی بہتری آسکتی ہے۔ گورنمنٹ طارق ہائی سکول کے شاندار ماحول میں ویڑنری سربراہ میاں شکیل معراج کا بنیادی کردار ہے جنھوں نے چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے ماحول کو چار چاند لگا دیے۔ میں سکول میں honesty shop دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بچوں کی تربیت کے لیے ایک کونے میں کھانے پینے کی چند اشیاء ایک ٹیبل پر رکھوائی ہوئی ہیں اور وہاں ایک کاغذ پر انکی قیمتیں لکھی ہوئی ہیں۔ طلباء جو چیز لینا چاہیں اس کی قیمت دیکھ کر پاس پڑے ایک ڈبے میں پیسے ڈالیں اور وہ چیز لے جائیں۔ جس کے پاس پیسے نہ ہوں وہ کاغذ کے دوسری سائیڈ پر اپنا نام لکھے۔ کیا چیز لی ہے اس کا اندراج کرے اور اگلے دن پیسے لا کر ڈبے میں ڈال دے۔ اسی طرح سکول میں کسی بچے کو کوئی چیز ملے تووہ بھی وہیں رکھے ہوئے ایک ڈبے میں ڈال دے اور جس کسی کی کوئی چیز گم ہوئی ہو وہ وہاں سے حاصل کرلے۔ اسی طرح طلباء کو ٹاسک دیا جاتا ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی چیز تخلیق کریں اور پھر ان تخلیق کاروں کو انعام دیا جاتا ہے۔ سکول میں طلباء  کے درمیان مختلف مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ میاں شکیل معراج کو سابق ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن قاضی خالد فاروق اور پروفیسر دلشاد احمد کی معاونت بھی حاصل ہے جو اپنی زندگی کے حاصل تجربات کی روشنی میں رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ یہ سارا کچھ خدمت خلق کی سوچ سے ہی ممکن ہے خاص کر اساتذہ کی نوکری صرف ملازمت ہی نہیں قوم کے مستقبل کے معماروں کی تربیت اور عین عبادت ہے جس کا اجر تنخواہ نہیں، اللہ کی رضا ہے۔ جن کی سوچ خدمت کی ہوتی ہے وہ ہر پہلو پر نظر رکھتے ہیں۔ میاں شکیل معراج کو شک گزرا کہ سکول کے بچے جو پانی پیتے ہیں وہ پینے کے قابل نہیں۔ انھوں نے ازخود پانی کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اور محلے داروں کو بھی بتایا کہ یہ پانی قابل استعمال نہیں۔ انھوں نے اپنی ذاتی کاوشوں سے سکول کے بچوں کے لیے ایک فلٹریش پلانٹ حاصل کیا لیکن اس کی انسٹالیشن کے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ انسٹال نہ ہو سکا۔ میں نے سکول کے وزٹ کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں اور ساتھ فلٹریش پلانٹ کی تنصیب کا ذکر کیا تو محترم اویس خوشنود نے اسی وقت اس کی تنصیب کے اخراجات بھجوا دیے۔ انشاء  اللہ دو تین دنوں تک اس کی تنصیب مکمل ہوجائے گی اور طلباء کو پینے کا صاف پانی میسر آئے گا۔

ای پیپر دی نیشن