باسہولت سیاست کی خوش فہمیاں

کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ آئے روز کی گرفتاریوں‘ مقدمات کے دھڑا دھڑ اندراج اور ریاستی جبر کی ان کارروائیوں سے زچ ہوئے پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنوں کے گھروں میں قدم جماتے خوف اور مستقبل کی غیریقینی کی صورتحال کو بھانپتے ہوئے قیدی نمبر 804 کی ہدایات پر پی ٹی آئی کی باہر بیٹھی قیادت نے پارٹی کے جلسے جلوسوں کیلئے خوش دلی کے ساتھ یا بادل نخواستہ حکومتی‘ انتظامی گائیڈ لائن کے مطابق چلنے کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ چنانچہ متعلقہ شہر کی انتظامیہ سے باقاعدہ درخواست دیکر جلسے کی اجازت طلب کی جاتی ہے اور پھر جس مقام پر جلسے کے انعقاد کا کہا جاتا ہے‘ سر جھکا کر اسکی بھی تعمیل کرلی جاتی ہے۔ پھر متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے جلسے کے متعینہ وقت پر بھی کوئی بڑا فساد پیدا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ گویا یہ حکومت اور اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے مابین عشق معشوقی کا سلسلہ چل نکلا ہے اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ یہ کہتے ہوئے سر نیہوڑا کر تعمیل کئے چلے جارہی ہے کہ:
عشق میں مرضیاں نہیں چلتیں
جو کہے اپنا یار‘ بسم اللہ
شاید اسی لئے پی ٹی آئی کے سرکاری وسائل سے مالامال قائدِ بے مثال علی امین گنڈاپور کی گھن گرج کسی معافی والے خانے میں محفوظ ہو گئی ہے اور انکے پیچ دار گیسوئے دراز معروف قوال عزیز میاں کے عکس و آہنگ کے قالب میں ڈھل کر تماشبینوں کو محض حظ اٹھانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ خدا لگتی کہیئے‘ سرکاری وسائل سے معمور لائو لشکر کے ساتھ گنڈاپور کاہنہ میں قبول کی گئی جلسہ گاہ کی جانب روانہ ہوں اور راستے میں رکاوٹ قرار دی گئی ایک سرکاری گاڑی کا راڈ مار کر شیشہ توڑنے پر ہی قناعت کرلیں اور جلسے کے متعینہ وقت تک جلسہ گاہ میں پہنچ ہی نہ پائیں۔ پھر دکھاوے کی بڑھکیں لگاتے ہوئے واپس لوٹ جائیں۔ جناب مزاحمتی سیاست کا یہ رنگ ڈھنگ ایوب خان سے مشرف تک کے عہد اقتدار میں کہیں دیکھا نہ سنا۔ ایوب خان کیخلاف طلبہ تحریک‘ بھٹو کیخلاف پی این اے کی تحریک‘ ضیاء  الحق کیخلاف ایم آر ڈی کی تحریک‘ سول حکومتوں میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کیخلاف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی)‘ پاکستان عوامی اتحاد‘ پی ڈی اے‘ پی ڈی ایف کی تحریک‘ مشرف کیخلاف اے آر ڈی کی تحریک اور کمبائنڈاپوزیشن کی متعدد دوسری تحریکوں میں‘ جن میں سے اکثر کا میں عینی شاہد ہوں‘ ایسی باسہولت اپوزیشن کے نظارے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے رہے۔ انفرادی طور پر ملک حاکمین خان اور چودھری محمد ارشد جیسی سہولت کاری انتظامیہ کے لوگوں کو ضرور مل جاتی تھی اور خواجہ خیرالدین ایم آرڈی کی تحریک کے کسی سخت دھارے کا رخ بھی موڑ لیا کرتے تھے مگر جناب! اس دہائی میں تو احتجاجی تحریکوں کی کیفیت امڈتی ہوئی سہولتوں کے ساتھ ایسے مناظر دکھا رہی ہے کہ:
مت پوچھ کہ کیا رنگ ہے میرا تیرے پیچھے
یہ دیکھ کہ کیا حال ہے تیرا میرے آگے
ذرا 2018ء کا سیاسی منظرنامہ دیکھئے کہ میاں نوازشریف اپنی بیمار اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر مریم نواز کے ہمراہ اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کرنے لندن سے لاہور آئے اور ائرپورٹ پر ہی دھرلئے گئے۔ انکے ’’فقیدالمثال‘‘ استقبال کیلئے میاں شہبازشریف نے دھوم دھڑکے والے لمبے جلوس کا اعلان و اہتمام کر رکھا تھا مگر یہ جلوس ایئرپورٹ تک پہنچ ہی نہ پایا اور میاں نوازشریف اور مریم نواز کا استقبال انکے پارٹی کارکنوں کے بجائے کوٹ لکھپت جیل کے عملے کے حصے میں آیا۔ پھر پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد بطور اپوزیشن اس پارٹی کی باسہولت حکومت مخالف تحریک کا تو کوئی ثانی ہی نہیں کہ عدالتی مہربانی بھی مکمل شامل حال رہی۔ پھر حکومت مخالف تحریک کیلئے کسی پارٹی کو 9 مئی سے بڑی سہولت تو کہیں مل ہی نہیں سکتی۔ اس سہولت کے ناجائز استعمال پر شکنجہ کسنے کی نوبت آئی ہے تو پی ٹی آئی کیلئے باسہولت جلسوں کے راستے کھل گئے ہیں۔ 
میرے خیال میں پی ٹی آئی کی قیادتوں نے آنے والے وقتوں میں مزید صعوبتوں سے بچنے کیلئے خود ہی اس باسہولت احتجاجی تحریک کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مقصد لاٹھی توڑے بغیر سانپ کو مارنے کا ہوگا مگر پی ٹی آئی کی اس باسہولت سیاست والی کمزوری کو بھانپ کر حکومتی اتحادی مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کو عوام کی جانب کان لپیٹ کر اپنی باسہولت سیاست کو آگے بڑھانے کا موقع مل گیا ہے۔ اسی جھلکتے اطمینان میں ہی تو وزیراعظم میاں شہبازشریف کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے لندن روانہ ہوتے وقت یہ بھپتی کسنے کا موقع مل گیا کہ ہم جلسے 2028ء میں کریں گے۔ ابھی ہمیں عوام سے کئے وعدے پورے کرنے ہیں۔ انکی حالت بہتر بنانی ہے اور آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کو پاکستان کیلئے آخری پروگرام بنانے کا ہدف پورا کرنا ہے۔
جناب! انہیں اتنی سہولت والی سیاست کرنے اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے مسلسل لگائے رکھنے کا موقع اپوزیشن کی باسہولت سیاست کے صدقے ہی ملا ہے مگر حضور یاد رکھیئے! آپ کی اصل اپوزیشن اپنے مفادات کی خاطر سہولتوں والی سیاست کرتی جماعت نہیں‘ اپنے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی سے عاجز آئے راندہ درگاہ عوام ہیں‘ جنہیں حکمران اشرافیہ طبقات نے اپنے مفادات کے رگڑے لگاتے ہوئے زندہ رہنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ آج عوام اپنے مسائل کی جس نہج تک آپہنچے ہیں‘ اسکے آگے موت کے خونیں سفر کا ہی آغاز ہونا ہے۔ جب آئی ایم ایف کی ہر ناروا شرط کا سزاوار پہلے ہی بے سدھ ہوئے پڑے عوام کو ٹھہرایا جا رہا ہو‘ اللتے تللوں میں ڈوبی نجی پاور کمپنیوں کو مسلسل نوازے رکھنے کے راستے بھی مجبور و مقہور عوام پر بجلی کے بھاری بلوں کے بوجھ ڈال کر نکالے جا رہے ہوں‘ یوٹیلٹی بلوں کو الابلاقسم کے ٹیکسوں سے لاد کر مزدور اور تنخواہ دار طبقات کا عملاً ناطقہ تنگ کیا جا رہا ہو‘ جان بچانے والی روٹین کی ادویات کے نرخ بھی بے وسیلہ عوام کی پہنچ سے دور کر دیئے گئے ہوں اور پھر اپوزیشن کی کسی باسہولت سیاست سے تقویت حاصل کرکے عوام کو مزید دبانے کی منصوبہ بندی ضمنی میزانیئے لانے کی صورت میں کی جا رہی ہو جس سے عوام کو محض زندہ رہنے کی خاطر ریاست سے ٹکرائو کے سوا کچھ اور سجھائی ہی نہ دے رہا ہو تو جناب اس فضا میں آپ کو 2028ء تک سکون سے بیٹھ کر اقتدار کی شیرینیاں آپس میں بانٹنے کی مہلت بھی مل پائے گی یا نہیں۔ تو جناب! آپ کا 2028ء تک کا اطمینان عوام کے اطمینان کے ساتھ ہی مشروط ہے۔ اب یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ آپ آئی ایم ایف سے نیا قرض حاصل کرنے کیلئے ضمنی میزانیوں کا بوجھ بھی پوری سہولت کے ساتھ عوام کی جانب منتقل کرتے رہیں جس کا عندیہ گزشتہ روز وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک پوری بے نیازی کے ساتھ ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں دے چکے ہیں‘ اور اپنے اقتصادی مالی مسائل تلے دبے عوام جان کنی کی کیفیت میں بھی ضمنی میزانیئے والا نیا بوجھ بھی ’’آمنا و صدقناً‘‘ کہتے ہوئے  قبول کرلیں۔ بجلی‘ گیس کے بلوں نے عوام کو رگڑے دینے میں پہلے ہی کوئی کسر نہ چھوڑی ہو اور پھر آپ ان پر ضمنی میزانیئے کے ذریعے ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنے کے ساتھ ساتھ ان کیلئے روزگار کے دروازے بھی مکمل بند کرنے کی عاجلانہ پالیسیوں کا سوچ رہے ہوں تو حضور یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام بے سدھ پڑے بس ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کی تصویر ہی بنے رہیں۔ 
بْھکّے کولوں بْرکی کھوہ کے کہندے او کہ بو لے نہ
جس دا جْھگا بھَجے‘ آخر اوہ تے رولا پاوے گا۔
آپ اپنے مخالفین کی سہولتوں والی سیاست پر تکیہ کرکے عوام کا گلا دبانے کا سوچیں گے تو پھر عوام سے یہ گِلا مت کیجئے کہ وہ ہمیں گھورتے کیوں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن